رنگ لاوے گی فاقہ مستی ایک دن !!!

0
3
سردار محمد نصراللہ

قارئین وطن! سالوں سے یو این او میں لگے تماشے دیکھ رہا ہوں، سیاسی سوج بوجھ چونکہ خون میں رچی بسی ہے امریکہ میں اپنے اوائل دنوں سے ہی یو این او ، کی چابک دستیوں پر نظر رہتی تھی اپنے پیارے ملک پاکستان سے بڑے بڑے اور بونے قد سربراہ اس سالانہ کھیل میں شرکت فرماتے ،سالوں سے ہم نے اپنے ملک کو غریب اور انڈر ڈولپ ہی پایا ہے لیکن جب بھی حکمران یہاں آتے ایک دو تین یا دس بیس لوگوں کے ہجوم کے بجائے کم سے کم تین چار درجن سے کم ہجوم لے کر چلتے تھے اور پھر یو این کے اجلاس پر کم توجہ ہوتی اور امریکن شراب خانوں اور نائٹ کلبوں کی راتوں کی رنگینیوں میں زیادہ کھوئے رہتے اور ان حکمرانوں کی بیویاں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ڈالروں کی شاپنگ کرتیں جو ان کے میاں نے حکومت کے خزانے سے چرائی ہوتی ہے جیسا کہ میں نے بڑے بڑے اسٹیٹ مین بھی دیکھے اور بونے بھی لیکن بدقسمتی سے بونے حکمرانوں کا نمبر زیادہ رہا،اس بار بھی قرعہ فعال ایک بہت ہی بڑے بونے میاں شہباز شریف کے نام نکلا جو ایک برات کے ساتھ تشریف کا ٹوکرا لے کر مملکتِ پاکستان کی یو این او میں نمائندگی کرنے آیا ہے لیکن آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے تو بجائے ایک ہی جہاز میں آنے کہ ٹکریوں میں آئے ہیں۔
قارئین وطن! آج پاکستان بنانے والوں پر صد افسوس کہ سالوں کے بعد یو این میں وطن عزیز کی نمائندگی کا سہرا کس کے سر پر سجا آج بھی ففتھ ایوینیو کے در و دیوار” شہباز شریف چور ہے بھئی چور ہے” سے گونج رہا ہے ہمارے نامور صحافی ناصر قیوم صاحب نے بتایا کہ سردار صاحب بس کچھ نہ پوچھیں کہ اتنی بدنامی نہ کوئی تقریر جس کا سر تھا نہ پیر اور تو اور جیسے اس کی باری ختم ہوئی اس نے لندن کی اُڑان بھری اور اپنے اللوں تللوں کو چھوڑ کریہ جا وہ جا، میں نے ناصر صاحب سے عرض کی کہ آپ ایک چور، ایک خائین، ایک لٹیرے سے کیا توقع کرتے ہیں کہ وہ کوئی بھٹو کی یا عمران خان کی طرح انٹلیکچویل ہے ،اس کی تقریر اور دورہ کی کامیابی کے ڈنکے اس بات پر بج رہے ہیں کہ آئی ایم ایف نے ہمیں سات ارب ڈالر کا قرضہ دے دیا ہے اور اس کی پہلی قسط ایک ارب اور کچھ لاکھ ڈالر ہمارے خزانے میں شامل کر لئے گئے ہیں ،سالوں سے ہم قرض ہی پر تو جی رہے ہیں اور ڈھول پیٹ رہے ہیں کیا قوم بننی تھی کیا قوم بن گئی ہے ،قائداعظم تیرا احسان ہے تیرا احسان ہے، حضرت غالب نے شاید ہم لوگوں کے لئے ہی کہا تھا!
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
واہ جی واہ مرزا نوشہ رنگ ہی تو لا رہی ہے ہماری فاقہ مستی حکومت بھی قرضوں پر چل رہی ہے ہم غریبوں کے چولھے بھی قرض پر چل رہے ہیں کوئی پوچھے ہر آنے والی حکومت آئی ایم آیف کے پاس پہنج جاتی ہے جب سے پاکستان بنا ہے کوئی / مرتبہ کشکول لے کر پہنچ جاتے ہیں ہمارا کشکول صرف آئی ایم ایف کے سامنے نہیں ہوتا چین سے لے کر تمام عرب اور ترک ممالک کے سامنے بھی سر جھکاتا ہے، قارئین وطن! آئی ایم ایف کے قرض کا کوئی حساب بھی ہے کسی کی کبھی جرات ہوئی ہے کہ وہ گیٹ نمبر چار والی حکومتوں سے حساب مانگے کہ خود ان کا بھی تو بڑا حصہ ہوتا ہے بقول کسی بڑے آدمی کے جیسا جسہ ویسا حصہ پتا نہیں کب آئی ایم ایف کے قرضوں سے جان چھوٹے گے لیکن سوچتا ہوں کہ اگر قرض نہ ملا تو حکمران کیسے جئیں گے اور ہمیں قرض کی مے نہ ملی تو ہم کیسے جئیں گے بس آ اک سمجھوتہ کریں کہ ہم عوام تمھارے قرض پر نہ بولیں گے تم ہماری فاقہ مستی کو انجوائے کرو آئی ایم ایف زندہ باد پاکستان زندہ باد –
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here