امریکہ میں میرے بارے عجیب وغریب کہانیاں مشہور ہیں۔ مثلاً مفتی صاحب کی چار بیویاں ہیں سترہ بچے ہیں۔ سات سیون الیون ہیں۔ وغیرہ وغیرہ میں سن کر مسکرا دیتا ہوں۔ چلو کچھ لوگ اگر اس طرح اپنا رانجھا راضی رکھنا چاہتے ہیں توخیر سے رکھیں، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ حالانکہ معاملہ برعکس ہے، مجھے میری پنشن کے علاوہ میرے نو بیٹے امریکہ میں کام کرتے ہیں اور ماہانہ بنیاد پر میرے اکائونٹس میں پیسے ڈالتے رہتے ہیں۔ آپ سب کو سن کر حیرت ہوگی کہ مسجد میں اللہ واسطے کا خطیب ہوں بلکہ ماہانہ چندہ بھی دیتا ہوں۔ میرے پاس کوئی جائیداد نہیں ،نہ مکان، نہ امریکہ میں نہ پاکستان میں، نہ یہ کوئی دکان اور نہ ہی میرا کوئی بینک بیلنس ،دو سو تین سو ڈالر میرے اکلوتے اکائونٹ میں ہوتے ہیں۔ جو پٹرول کے لئے رکھے ہوتے ہیں، میری گاڑی میری بیگم نے کمال مہربانی فرماتے ہوئے فلی پے کر دی تھی یعنی گاڑی پیڈ ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے ماہانہ پنشن سمیت پیسے کہاں جاتے ہیں۔ جواب تو یہ ہے کہ سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے امام حسن رضی اللہ کے اس سوال کے جواب کہ آپ کی کوئی جائیداد ہے جو قابل تقسیم ہو میں بڑا ہوں۔ بہن بھائیوں میں تقسیم کردوں۔ آپ نے تاریخی جواب دیا مجھے کیا ضرورت پڑی تھی کہ میں تم لوگوں کے لئے خزانچی بنتا۔ یعنی حساب میں دیتا مزے آپ کرتے اس لئے اپنا معاملہ دنیا میں ہی صاف کردیا۔ صرف اللہ کا نام بچا ہے۔ سو مجھے جو پیسے ملتے ہیں اپنے گائوں میں فری ڈسپنسری کھول رکھی ہے۔ مسجد ہے ،مدرسہ ہے، اور اپنے غریب رشتے داروں کے چولہے ہیں جو جلتے رہتے ہیں۔ بچپن میں ایک کہانی سنی تھی ایک نوجوان کو تنخواہ ملی اچھی نوکری تھی معقول تنخواہ ملی ساری تنخواہ والدہ کے ہاتھ پر رکھ دی ماں نیک عورت تھی اس نے تیسرا حصہ اللہ واسطے نکال کر کہا یہ فلاں محلے میں ایک بیوہ عورت رہتی ہے۔ وہ بہت ضرورت مند ہے اس کیلئے راشن لے آئو اور صبح جاکر پہنچا دینا، گھر میں سب بہن بھائیوں نے خوب جشن کیا، کھایا پیا، دھما جوکڑی مچائی اس کے بعد سونے کے لئے چلا گیا، سخت سردی تھی، رضائی منہ پر ڈالی۔ ایک دم بیوہ عورت کا خیال آگیا پھر مجھے نیند نہیں آئی میں اٹھا اور راشن اٹھا کر اس بیوہ عورت کے گھر کی طرف چل دیا۔ رات کے وقت دروازہ کھٹکایا تو ایک بچی دوڑتی ہوئی آئی اور کہا کھانا لائے ہو۔ میں حیران ہوگیا اس کو کیسے پتہ چلا کہ میں کھانا لایا ہوں اس نے بھائی کو آواز دی، بھیا بھاگ کر آئو فرشتہ آگیا۔ بچہ بھی دوڑتا ہوا چلاا آیا، پیچھے پیچھے ماں بھی چلی آئی۔ کہنے لگی بیٹا ہم دو دن سے بھوکے ہیں۔ خاوند کے فوت کے بعد آہستہ آہستہ سب نے منہ موڑ لیا ہے۔ آج بچے بہت تنگ کر رہے تھے میں نے ان کو تسلی دی کہ گھبرائو نہ فرشتہ کھانا لے کر آنے والا ہے۔ اس لئے تمہیں فرشتہ سمجھ بیٹھے ہیں، راشن چھوڑ کر مڑا تو آنکھیں برس پڑیں، کاش ہم فرشتے ہوتے سو میرے بھائیو، دوستو، بچو مجھے جو کچھ ملتا ہے مہینہ ختم ہوتے ہی میرے ہاتھ خالی ہوتے ہیں، صرف دو سو پیٹرول کیلئے کاش ہم سب فرشتے بن جائیں ،دنیاوی بوجھ ہلکا کرلیں۔
٭٭٭