قارئین وطن! بروز ہفتہ تحریک انصاف پاکستان کا اسلام آباد میں ہونے والا پاور شو بظاہر تو ایک شہر کا شو لگتا ہے لیکن تقریبا سے بڑے شہروں میں لاکھوں معصوم بچوں سے لے کر جوان اور بزرگ، بہن، بھائیوں نے اپنی کھلی آنکھوں اور کھلے کانوں سے دیکھا اور سنا اِ س کے علاوہ براعظم امریکہ ، براعظم آسٹریلیا ، یورپ، ، مڈل ایسٹ ، ایشیا اور براعظم پاک و ہندمیں عمران کا یہ شو دیکھا گیا، اب آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ نمبروں میں ان کی کتنی تعداد ہے، خان صاحب کی تقریر میں جوش و خروش دیدنی تھا وہی پرانا انداز کہ پر امن احتجاج کی تلقین لیکن خان صاحب! اب آپ کو اپنی تحریک کا لیول آپ گریڈ کرنا چاہئے، اب آپ کو اپنی اسٹرٹیجی بدلنی پڑے گی کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے، پر امن احتجاج سے کچھ نہیں بننے والا یہ نیوٹرل اور ان کے بٹھائے ہوئے سیاسی گماشتے ایک پلان کے تحت کام کر رہے ہیں ،ہمیں کیوں نہیں سمجھ آ رہی کہ یہ ملک کی معیشت کو اس دھانے پر لے کر جا رہے ہیں جہاں عوام اپنی ایک وقت کی روٹی بھول جائیں اور خود اپنا قیمتی اثاثہ عدو کی جھولی میں ڈال دیں۔
قارئین وطن! اب عمران خان جو سال میں قائد اعظم کے پاکستان کی خود مختاری اور عوام کے پاں میں پڑی بیڑیوں کو کاٹنے کا عزم لے کر اٹھا ہے کو نیوٹرل کی گردان سے باہر نکل کر سیدھا سیدھا جرنل باجوہ کا نام لے کر قوم کو بتانا چاہئے کہ یہ ہے وہ شخص یہ ہے وہ میر سپاہ یہ ہے وہ میر جعفر جس نے کروڑ پاکستانیوں کی پیٹھ میں اپنا خنجر گھونپا ہے ۔ سارا سوشل میڈیا بھرا ہوا ہے گو باجوہ گوہ لیکن باجوہ صاحب کو احساس نہیں ہو پا رہا کہ وہ دنیا کے جس کونے میں بھی جا بسنے کی کوشش کرے گا یہ جو ہماری لغت کا لفظ غدار ہے اس کا اور اس کے خاندان کا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے جب میں قومی سلامتی کے ضامن میر سپاہ کو غلیظ گالیاں پڑتے سنتا ہوں۔ اور اس وقت زیادہ تکلیف ہوتی ہے جب کوئی دشمن ملک کا باشندہ ٹھٹھے مارتا جرنل باجوہ پر طنز کرتا ہے میں کالم کے تقدس کی وجہ سے اس پاکستانی خاتون کاجو کینیڈا میں اپنے درد کا اظہار کرتی ہے کہ اس کے ملک پر چوروں لٹیروں اور خائنوں کی حکومت اس باجوہ کی وجہ سے مسلط ہے جس کے ہاتھوں میں قوم نے اپنی سلامتی سونپی تھی ان گالیوں کو دہرا نہیں سکتا جو وہ دیتی ہے، یقینا آی ایس پی آر جو آجکل اتنی جرات بھی نہیں رکھتا اور اس سے بے باکی برداشت نہیں ہوتی اور ایاز امیر جیسے دانشور کی ٹھکائی کر وا سکتا ہے اور عمران ریاض خان کے بیوی بچوں اور صابر شاکر جیسے حق سچ بیان کرنے والوں کو روز دھمکیاں دیتے نہیں تھکتے اس بہادر خاتون کا کیا حشر کریں گے۔
قارئین وطن! میرے ایک مرحوم دوست میاں اشرف اللہ ان کی مغفرت فرمائے اکثر یہ شعر پڑھا کرتے تھے!
بیڑیاں آج بھی پہنے ہوئے ہیں اثیرانِ وطن
فرق اتنا ہے کہ زنجیر میں جھنکار نہیں ہے
آج پاکستان کے قیام کو سال ہونے کو ہوتے ہیں پاں ہمارے جکڑے ہوئے ہیں چل پھر تو رہیں ہیں لیکن دوسری قوموں کی طرح ہم میں وہ ترقی کی قووت نہیں ہے بعض چیزیں معجزات کی وجہ سے ہو جاتی ہیں جیسے ہمارے اثاثہ جات جو وردی سے زیادہ ہمارا تحفظ کر سکتے ہیں میں نے عراق کے لیبیا کے مصر کے وردی والے امریکہ کے ڈالروں کے سامنے جھکتے اور بکتے ہوئے دیکھا ہے دنیا کے خوبصورت آئیلینڈ پر آباد ہوتے دیکھا ہے تاکہ دنیا کی نظروں سے دور آباد لیکن خدا کی قسم ان کو اور ان کی اولادوں کو وہاں بھی ذلیل و رسوا ہوتے دیکھا ہے غدار کو کہیں اماں نہیں ملتی وقتی طور پر چند روز کی اٹکھلیاں تو کر سکتے ہیں اس کے بعد تماشہ عبرت بن جاتے ہیں لہازا جرنل باجوہ صاحب اور تمام ان کے کوہوٹز تمہاری سب کی اور پاکستان کی نجات اس میں ہے کہ امریکہ کے اس مسلط کردہ گند سے نجات حاصل کرو اور ملک میں صاف شفاف انتخابات کا انعقاد کروا تاکہ ملک کو آزادی کے سفر پر گامزن کیا جا سکے ۔ اور قوم کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم عمران خان کے شانے کے ساتھ شانہ ملا کر سال کی ہمارے پاں کی زنجیروں میں جھنکار پیدا کریں تاکہ اس کی گونج سے انقلاب انقلاب کی آواز آئے ،پاکستان زندہ باد!
نوٹ! میری اپنے قارئین اور احباب سے اپیل ہے کہ کالم کو اپنے احباب کو بھی فارورڈ کریں تاکہ ریڈرز میں اضافہ ہو شکریہ
٭٭٭