پاکستان میں سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کو لے کر یہ شور شرابہ کیا جا رہا ہے کہ ان کے کارکنان کہاں ہیں، کوئی ان کی گرفتاری پر احتجاج کرنے کیلئے باہر کیوں نہیں نکل رہا، تو اس پر زیادہ حیران ہونے کی ضرورت نہیں یہ وہی صورتحال ہے جس کا سامنا ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ملنے، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو جلا وطنی اختیار کرتے وقت دیکھنا پڑی تھی۔ یعنی کارکنان اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ کے گئے۔ ہر جماعت کو ایک وقت ملتا ہے اور ہر جماعت کے کارکنان کا ایک وقتی جذباتی رویہ سامنے آتا ہے۔ کیا پیپلز پارٹی کے پاس اتنے ہی جذباتی کارکنان نہیں تھے جن کے بارے میں آج پاکستان پیپلز پارٹی فخر کے ساتھ کہتی ہے کہ انہوں نے کوڑے کھائے، ضیا الحق کے مارشل لا کے سختیاں برداشت کیں مگر پاکستان پیپلز پارٹی کا ساتھ نا چھوڑا۔ پرویز مشرف کے بدترین رویے کے باوجود مسلم لیگ نون کا وجود ختم کرنا ممکن نہیں ہو سکا، اسی صورتحال کا سامنا اس وقت سابق وزیراعظم عمران خان کو بھی ہے کہ جنہیں آج بآسانی اڈیالہ جیل تک پہنچایا گیا اور کوئی سڑک بند نہ ملی دراصل یہی وہ خوف ہے جو کارکنان کو وقتی طور پر اپنے گھروں میں بند کر دیتا ہے اور اسی خوف کو اسٹیبلشمنٹ کا خوف پکارا جاتا ہے۔ یہ خوف ہی ہم پر 75 سال سے راج کر رہا ہے، یہی ہماری جماعتیں بناتا اور تڑواتا ہے،، اسمبلی کی مدت کا تعین بھی یہی خوف کرتا آ رہا ہے، اور اگے کے فیصلے بھی شاید یہی خوف کرتا رہے جب تک کہ اس اسٹیبلشمنٹی خوف کو خدا کا خوف نہ ایا اور ملک اس کی بدحالی دیکھ کر خیال نہ ایا کہ اگر سیاست دانوں کو یونہی رسوا کیا جاتا رہا تو ایک دن وہ خود بھی یونہی رسوا نا ہو رہے ہوں۔۔۔ شاید یہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام ہی ہے جس کے سبب اج ہماری معیشت بدحالی کے اس دور سے گزر رہی ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔۔۔
اج اسٹیبلشمنٹ اور فوجی جرنیلوں کو سرعام سامنے ا کر یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ چائنہ اور سعودی عرب نے پاکستان کی مدد ہماری سفارش پر کی،، اج پوری دنیا میں شاید پاکستان کے سیاسی نظام کا اعتبار قائم نہیں رہا مگر جو چیز آج بھی پاکستان میں قائم دائم ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کا یہی خوف ہے جس کو قائم رکھنے کے لیے جانے وہ ابھی کون کون سی قربانی لیں گے۔
٭٭٭