قارئین وطن! دوسرا ہفتہ ہو چکا مجھے پاکستان سے آئے ہوئے گزارے ہوئے آٹھ ہفتے بہت یاد آتے ہیں ویسے تو لاہور گہری دھند میں ڈوبا ہوا تھا اور شروع کے ایام میں فوگ لیکن ان سب کے باوجود لاہور میری نس نس میں بسا ہوا تھا سیاسی گفتگو پر جیسے کانوں میں سیسہ اترا ہوا تھا نہ سننے کو مزا نہ کہنے کو مزا لیکن پھر بھی وقت خوب گزرتا تھا فجر کی آزان کے بعد صبح صبح اپنی سب سے چھوٹی بہن تہمینہ کے دردوں اور گالیوں کے شور سے دن کا آغاز ہوتا پھر رضیہ سلطانہ صاحبہ کسٹوڈئین کی ڈانٹ ڈپٹ کی آواز اور میں اپنے رب سے یہی دعا کرتا کہ اے اللہ باری تعالی میری بہن کے لئے آسانیاں پیدا فرما آمین ۔ پھر تقریبا ۔ پر شاہد وٹو میرا میجر ڈوما میرے دن کی تیاریاں شروع کر تا ہے بجے کے قریب ناشتہ کا مینو پوچھ کر پھر طبیعت کے مطابق ناشتہ کر وا کر نچلی منزل کا سفر شروع ہوتا جہاں دھوپ کی آمد کا انتظار ہوتا اور جیسے ہی دھوپ کی کرنیں اپنے عروج پر ہوتیں تو میرا ڈرائیور اکرم قریشی مجھے میرے فیورٹ ریسٹورنٹ سیکنڈ کپ کافی جو کہ جیل روڈ پر ریس کورس پارک میں واقعہ ہے جہاں میں کڑکتی دھوپ کافی اور اپنا کورم سگار انجوائے کرتا ہوں سورج کے ڈھلتے تک اور واپس گھر پہنچ کر اصل میں اپنے دن اور سیاست کا آغاز کرتا ہوں جی ہاں شاہد وٹو صاحب اس اثنا میں شام کے مینو کے بارے میری خواہش کا خاص احترام کا خیال رکھتے ساتھ ہی ساتھ آٹھ دس کرسیاں چھوٹے سے برآمدہ میں سج جاتیں اور نبیذِشام کا مزا لینے کے لئے باقائدہ آلا کا اہتمام کیا جاتا – تاکہ سیاسی مافیا کے جبر کی پرواہ کئے بغیر کھل کر گفتگو کی جائے ۔
قارئین وطن! جیسے کہ بڑے کہتے ہیں کہ چور چوری سے جا سکتا ہے ہیرا پھیری سے نہیں اسی کو خیال میں لاتے ہوئے اپنے شوقِ سیاست کو پروان دینے کے لئے شام کو مجلس سج ہی جاتی حالانکہ مرشد ثانی فیض کا شعر!
جسم پر قید ہے جذ بات پر زنجیریں ہیں فکر محبوس ہے گفتار پر تعزیریں ہیں
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں !!
بس اس کی پرواہ نہ کئے سیاسی ذہنوں کا گھٹ جوڑ ہوجاتا ملاقاتیوں میں سب سے پہلے اثر چوہان صاحب ایڈوکیٹ نے شرف ملاقات بخشا چوہان صاحب مزاجا اسپورٹس مین ہیں سیاست میں دلچسپی کم لیتے ہیں لیکن ملکی معملات پر نظر خوب رکھتے ہیں اور جو کچھ ملک میں اسٹیبلشمنٹ کی مچی کھلبلی سے غافل نہیں ہیں – ابھی تو سیاسی دوستوں سے ملاقات کا سلسلہ شروع ہوا تھا میرے مہربان اور وکلا برادری کا بڑا نام سابق سیکرٹری سپریم کورٹ اسلم زار ایڈوکیٹ صاحب نے مجھے اور کینیڈا سے آئے ہوئے پامی کے کنیڈا کے عہدیدار امجد مغل صاحب کی پہلی دعوت کی فیلکن کلب میں جہاں مزے دار کھانے کے ساتھ ساتھ مہر جہانگیر ایڈوکیٹ صاحب، جاوید گورایہ صاحب ، گوہر علی خان سیکرٹری جرنل پاکستان کونسل مسلم لیگ حافظہ کی مجبوری کی وجہ سے کچھ نام بھول رہا ہوں تقریبا سب دوست ملکی سیاست اور معاشی بدحالی سے نالاں تھے اور نئے انتخابات پر زور دے رہے تھے سب کا کہنا تھا کہ فارم کی حکومت نہ صرف نااہل ہے بلکہ شکست خوردہ ہے اور ایک شخص عمران خان کے خوف سے اتنی لرزاں ہے کہ ہر لمحہ ملک کو تاریکی میں دکھیل رہی ہے آپ خود اندازہ لگائیں کے سوچنے والے اور خواب دیکھنے والے کب سیاست پر بات کرنے سے رکتے ہیں زار صاحب ہم پردیسیوں کو دعوت دینے کے جند دنوں بعد عمرہ کی سعادت پر روانہ ہو گئے اللہ پاک ان کا عمرہ قبول فرمائے آمین !
قارئین! ملکی سیاست اسی بڈھنگی چال پر چل رہی ہے جس طرح چھوڑ کر آیا ہوں ابھی بہت سے دوستوں اور مہربانوں کا ذکر باقی ہے جن کا ذکر جاری رہے جو کالم کی طوالت کے خوف سے یہیں پر اختتام کر رہا ہوں -پاکستان زندہ باد !
٭٭٭