واشنگٹن (پاکستان نیوز) امریکہ نے نائن الیون کی طرح افغانستان میں ناکام جنگ کا ملبہ بھی پاکستان پر گرانے کی منصوبہ بندی شروع کر دی ہے ، ری پبلیکن کے سینیٹر جم رشک سمیت 22 سینیٹرز نے افغانستان سے جلد بازی میں انخلا کے بائیڈن حکومت کے فیصلے کا جائزہ لینے اور طالبان کی مدد کرنیوالے ممالک خاص طور پر پاکستان کیخلاف سخت پابندیوں کیلئے بل سینیٹ میں پیش کر دیا ہے ، اس مسودے میں امریکی محکمہ خارجہ سے افغانستان سے امریکی شہریوں اور افغان سپیشل امیگرنٹ ویزا رکھنے والے افراد کو ملک سے نکالنے کے لیے ٹاسک فورس قائم کرنے کے لیے بھی کہا گیا ہے۔اس کے علاوہ بل میں طالبان کے خلاف مقابلے کے لیے اور طالبان کے پاس امریکی ساز و سامان اور اسلحے کو واپس حاصل کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔واضح رہے کہ امریکی سینیٹ میں اس وقت ڈیموکریٹک اور رپبلکن سینیٹرز کی تعداد برابر ہے (دونوں کے 50، 50 ممبران ہیں) اور کسی بل کو پیش کرنے اور اس کو منظور کرانے کے لیے اکثریت نہ ہونے کی صورت میں نائب صدر کملا ہیرس کا حتمی ووٹ استعمال کیا جائے گا۔اس بل کے حوالے سے دیے گئے اپنے بیان میں سینٹر جم رشک نے کہا کہ امریکہ کو طالبان سے دوبارہ سے خطرہ ہے اور انھوں نے اس اُمید کا اظہار کیا کہ وہ اس کی مدد سے ان افراد کی جلد سے جلد مدد کر سکیں گے جو افغانستان میں ابھی بھی موجود ہیں اور اس بل کی مدد سے امریکی مفادات کو تحفظ فراہم کر سکیں گے۔بل کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد پاکستان کی وفاقی وزیر شیریں مزاری نے ٹوئٹر پر سلسلہ وار ٹویٹس میں تبصرہ کرتے ہوئے شدید ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ 80 ہزار جانوں کی قربانی دینے کے باوجود پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے حالانکہ یہ کبھی بھی پاکستان کی جنگ نہیں تھی۔شیریں مزاری نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ پاکستان کو ‘وار آن ٹیرر’ میں امریکی اتحادی ہونے کی سزا مل رہی ہے حالانکہ ‘امریکہ اور نیٹو نے 20 سال کا عرصہ گزرنے کا باوجود افغانستان میں کوئی مستحکم حکومت قائم نہیں کی۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغان آرمی اتنی جلدی کیسے ختم ہو گئی؟ پاکستان سے طالبان کی قیادت کو رہا کرنے کا مطالبہ کس کا تھا؟ دوحا میں طالبان سے معاہدہ کس نے کیا اور ان کی واشنگٹن ڈی سی میں میزبانی کس نے کی؟شیریں مزاری نے کہا کہ اب بس بہت ہو چکا ہے اور وہ طاقتیں جو افغانستان میں تھیں ان کو چاہئے کہ پاکستان پر الزامات لگانے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکیں۔واشنگٹن ڈی سی میں تھنک ٹینک نیو لائنز انسٹٹیوٹ فار سٹریٹجی اینڈ پالیسی کے ڈائریکٹر کامران بخاری نے اس بل کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی نظر میں یہ بل امریکہ کی اپنی مقامی سیاست کے پس منظر میں پیش کیا گیا ہے اور رپبلکن پارٹی اگلے ایک سال میں ہونے والے وسط مدتی الیکشن کا سوچ رہی ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ ابھی اس بل کی حمایت میں صرف 22 ممبران ہیں اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ رپبلکن پارٹی کے اور کتنے ممبران اس کی حمایت کریں گے اور کیونکہ یہ بل کافی مبہم ہے تو یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ آگے کیا ہو گا اور کب کچھ ہو گا۔صحافی اور تجزیہ نگار سرل المیڈا نے بھی اس بل کے حوالے سے بتایا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ نائن الیون کے بعد سے امریکہ میں خارجہ پالیسی پر کام کرنے والوں کے ذہنوں میں پاکستان کے لیے جارحانہ اور منفی تاثرات ہیں لیکن اس وقت کے بعد سے آنے والی تمام امریکی حکومتیں پاکستان کی اہمیت کو سمجھتی ہیں۔کامران بخاری نے بھی اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ انھیں نہیں لگتا کہ امریکی حکومت پاکستان پر حد درجہ دباؤ ڈالے گی لیکن ساتھ ساتھ ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت ممکن ہے کہ انتظامیہ اس بل کو وجہ بناتے ہوئے پاکستان کو اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔جو بائیڈن انتظامیہ یہ کہہ سکتی ہے کہ دیکھیں یہ بل رپبلکن پارٹی نے پیش کیا ہے اور اس میں ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن آپ بتائیں کہ آپ کیا دے سکتے ہیں تاکہ ہم اس کی مدد سے اس بل کو روک سکیں،دوسری جانب سرل المیڈا نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ نے جیسے تیسے ایک دوسرے کے ساتھ دو دہائیاں گزار تو لی ہیں لیکن اب کیونکہ امریکہ چین کو اپنا حریف سمجھتا ہے اور ابھی تک انھوں نے پاکستان کی جانب دوستانہ ہاتھ نہیں بڑھایا ہے تو ان دونوں ممالک کے مستقبل کے تعلقات غیر یقینی نظر آتے ہیں۔افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد سے پاکستان کی جانب سے عالمی برادری سے مطالبہ سامنے آ چکا ہے کہ وہ طالبان کو ‘موقع’ دیں۔ وزیراعظم عمران خان نے حال ہی میں دوشنبے میں کہا تھا کہ انھوں نے تمام گروہوں کی نمائندہ حکومت کی خاطر تاجک، ہزارہ اور ازبک برادری کی افغان حکومت میں شمولیت کے لیے طالبان سے مذاکرات کی ابتدا کر دی ہے۔پاکستان کے وزیرِ داخلہ شیخ رشید بھی کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ طالبان کی حکومت کو وقت دینا چاہیے۔حال ہی میں انھوں نے کہا کہ عالمی برادری طالبان کو وقت اور وسائل دے، امید ہے طالبان اپنے وعدوں پر عمل درآمد کریں گے تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان ‘افغانستان کی حکومت کو مشورہ دے سکتا ہے، کسی خاص فیصلے پر مجبور نہیں کر سکتا۔پاکستان اور طالبان کے تعلقات اور ان میں حقیقت کے بارے میں بات کرتے ہوئے سرل المیڈا نے کہا کہ اس بات میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ اگر پاکستان کی مدد اور حمایت نہ ہوتی تو طالبان اتنے طویل عرصے تک کامیابیاں حاصل نہ کر پاتے لیکن یہاں یہ بات یاد رکھنا ضروری ہوگی کہ پاکستان نے طالبان کی مدد کیوں کی؟ پاکستان نے طالبان کو افغانستان کی سرزمین پر انڈیا کا اثر و رسوخ روکنے کے لیے استعمال کیا اور اس لیے کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اس خطے کے پشتون قوم پرستی کی جانب مائل نہ ہوں۔سرل المیڈا یہ بھی سمجھتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور اس کے رہنماؤں کو بھی خیال رکھنا چاہیے کہ وہ جذباتی رد عمل نہ دیا کریں۔وہ پاکستانی عوام کا سوچیں اور ٹوئٹر پر ہر چیز نہ بولا کریں جو پاکستان کے حریفوں کو پاکستان پر تنقید کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ادھر کامران بخاری کا پاکستان اور طالبان کے تعلقات اور مدد کے سوال پر کہنا تھا کہ وہ اس بل میں پنجشیر کے حوالے سے لگائے گئے الزامات کو تو مضحکہ خیز سمجھتے ہیں لیکن دوسری جانب انھوں نے بھی کہا کہ پاکستان کی جانب سے طالبان کو مدد اور تحفظ فراہم کرنے والی بات کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے اور یہ تو پاکستانی وزیر داخلہ شیخ رشید خود تسلیم کر چکے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا قصور یہ ہے کہ انھوں نے طالبان پر اس وقت اتنا دباؤ نہیں ڈالا جب ان کو کرنا چاہیے تھا اور جب وہ کر سکتے تھے۔پاکستان کے لیے یہ محض تخیل کی ناکامی کا مظہر ہے۔ ان کے پاس بہت مواقع تھے جب وہ طالبان کے خلاف ٹھوس اقدامات لے سکتے تھے۔ ایک جانب پاکستانی فوج کے سربراہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ کہتے ہیں کہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں لیکن دوسری جانب زمینی حالات اس پالیسی کے متضاد ہیں ، پاکستان کی جانب سے ہمیں قیادت میں کمی نظر آئی ہے، ہمت میں کمی نظر آئی ہے۔امریکہ کی سینیٹ میں پاکستان پر پابندیوں کیلئے بل پیش کیے جانے پر پاکستان نے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ خطے میں مستقبل میں کسی ممکنہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان اور امریکہ کے درمیان مستقل سکیورٹی تعاون کی اہمیت ہے۔ اس لیے اس طرح کی مجوزہ قانون سازی نامناسب، بلاجواز اور نقصان دہ ہوگی۔پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ ہم میڈیا اور کیپٹل ہل میں افغانستان سے امریکہ انخلا کے حوالے سے جاری بحث کو دیکھ رہے ہیں۔ امریکی سینیٹ میں ری پبلکن سینیٹرز کی جانب سے قانون سازی کے لیے بل پیش کیا جانا اسی بحث کا ردعمل دکھائی دیتا ہے۔ بدھ کو دفتر خارجہ کے مطابق ‘اس قانون سازی میں پاکستان کا ذکر اور حوالہ مکمل طور پر بلا جواز ہے۔ ہم اس طرح کے حوالوں کو افغانستان کے معاملے میں سنہ 2001 سے جاری پاکستان اور امریکہ کے تعاون کی روح کے منافی سمجھتے ہیں جس میں افغان امن عمل اور حالیہ عرصے میں افغانستان سے امریکیوں اور دیگر ملکوں کے شہریوں کے انخلا میں تعاون بھی شامل رہا۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان ہمیشہ سے سمجھتا رہا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ اسی طرح دباؤ کی پالیسی سے کام نہیں ہوگا اور افغانستان میں دیرپا اور مستقبل امن کے لیے بات چیت اور رابطے رکھنا ہی واحد راستہ ہے۔دفتر خارجہ نے کہا کہ خطے میں مستقبل میں کسی ممکنہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان اور امریکہ کے درمیان مستقل سکیورٹی تعاون کی اہمیت ہے۔ اس لیے اس طرح کی مجوزہ قانون سازی نامناسب، بلاجواز اور نقصان دہ ہوگی۔