تجزیہ: رمضان رانا
اگرچہ انڈین تاریخ کو ہر شخص نے تعصبات اور نفرت کی بنا پر بیان کرنے کی کوشش کی ہے جس کے باوجود پنجاب، سندھ، راجھستان،کشمیر، گجرات، دہلی اور یوپی وغیرہ کے باسیوں کا آپس میں قریبی خونی رشتہ ہے، بشرطیکہ ان کا حملہ آوروں کی نسلوں سے تعلق نہ ہو، پنجابی،سندھی، سرائیکی، گجراتی، کشمیری راجھستانی، مالواڑی، مرھٹی،اردو زبانیں نہیں ہیں ، بولیاں یا ڈائیلاگ ہیں جو سنسکرت کی کوکھ سے پیدا ہوئے ہیں اگر وادی سندھ کی تاریخ پر روشنی ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ درواڑ قبائل کے بعد چار ہزار سال پہلے آرئیں قبائل مرکزی ایشیا سے وادی سندھ میں داخل ہوئے ہیں جنہوں نے وادی سندھ کے اندر قبائلی زندگی کے بعد ریاستوں کو جنم دیا ہے، جس کو راج دھانیوں کے ناموں سے پکارا جاتا ہے جس میں پنجابی، سندھی، سرائیکی، گجراتی، راجھستانی، مرھٹی، مالواڑی، دھلی اور یوپی کے لوگ شامل ہیں جن پر پہلے راجپوت قبائل قابض تھے، جس پھر آہستہ آہستہ مذہبی برہمن قابض ہوا تھا، جن کے اندر آج تک انسانی ذات پات گھسی ہوئی ہے جو اپنے آپ کو اعلیٰ کلاس تصور کرتا ہے، تاہم اشوک اعظم اور راجہ پورس کے وقتوں میں اس خطے میں کوئی افغان، پشتون اور بلوچ نامی قبائل نہیں پائے جاتے ہیں جس کا ثبوت پشتو اور بلوچی زبانیں اس خطے کی سنسکرت اور درواڑ زبانوں کا حصہ نہیں ہیں جس کی مثال ہے کہ آج بھی بلوچستان میں درواڑی زبان بروہی بولی جا رہی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پشتوں اور بلوچ اسلام کے بعد مسلمانوں کی شکل میں ان علاقوں میں آکر آباد ہوئے ہیں جن کا وادی سندھ کے باسیوں کے ساتھ کلچر، زبان، رسم رواج اور تہذیب و تمدن مختلف ہے، اس لیے وادی سندھ کے باسیوں کے خونی رشتے کو تبدیل کرنے سے ڈی این اے تبدیل نہیں ہو سکتا ہے جس کو عربی، ترکی ، ایرانی، افغانی، کوہستانی نسلوں نے مقامی لوگوں کے اندر احساس کمتری پیدا کرکے ان کی نسلوں، زبانوں، کلچروں، رسم رواجوں کو بدلنے کی کوشش کی ہے جس میں شاید کچھ درجہ تک وہ کامیاب رہے ہیں۔











