ہمارے بہت ہی محترم و مکرم و معزز بزرگ جناب سید اطہر حسین نقوی ابن سید عبادت علی نقوی 12 اور 13 ستمبر کی درمیانی شب میں خالق حقیق کو لبیک کہتے ہوئے وفات پاگئے۔ انہیں مرحوم لکھتے ہو ئے وحشت ہو رہی ہے ۔ حضورۖ کی حدیث مبارکہ ہے!
من مات علی حب آل محمد مات شہید ا!: وہ انتہائی شریف النفس، ہائی کوالیفائیڈ، ہنس مکھ، خوش اخلاق اور مذہبی و سماجی شخصیت تھے۔ انہوں نے اپنے بچوں بچیوں اور گرینڈ چلڈرن کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی اور انہیں نیک، لائق اور فائق بنایا
انکے فرزند سید رضا علی نقوی نے کمپیوٹر کی دنیا میں سینکڑوں جوانوں کی بے لوث خدمت و مدد کی جو آج بہترین نوکریاں کر رہے ہیں۔ انہیں مجالس امام حسین علیہ اسلام سے اس قدر عقیدت تھی کہ جب تک ہمت رہی آکسیجن ماسک لگا کر بھی مجالس میں تشریف لاتے رہے۔ وہ المہدی سینٹر کی رونق شمار ہوتے تھے، کچھ سال قبل انکی اہلیہ کا انتقال ہوا تو انہوں نے بڑے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ وہ رجال دین کے بڑے قدر دان تھے۔ میرے لئے اپنے صاحب زادے کے ذریعے بطور نیاز ہمیشہ کچھ نہ کچھ رقم بھجواتے رہتے تھے۔
صوم و صلات و خمس و زکواة کے پابند تھے، جب مجلس میں اچھے نکات نکلتے تو بزرگی کے باوجود داد دیئے بغیر نہ رہتے تھے۔ سال میں ایک مرتبہ نیاز امام جعفر صادق ع پر خواص و عوام کو بلاتے تھے۔ شب زندہ دار تھے۔ تلاوت قرآن مسلسل باقاعدگی سے کرتے تھے۔ شب زندہ دار تھے۔انہیں انتہا درجہ کا ذوق مطالعہ تھا۔ وہ ہر ملنے والے۔چھوٹے کو پیارے انداز میں نصیحت فرماتے تھے، انکے روم میں عموما الہدی ٹی وی لگا رہتا تھا آپ بڑے مہمان نواز تھے۔ آپکو ریسرچ کا بڑا شوق تھا۔ ہم جب انکے ہاں بیٹھتے تو پرانے زمانے کے نصیحت آموز قصے سناتے تھے، جو چھوٹوں بڑوں کیلئے سود مند ہوتے تھے عشق رسالتۖ، اظہار ولایت اور عزاداری حسین ع انکا مقصد حیات تھا۔
آپکے فرزندان ارجمند ان سید مطہر نقوی، سید مبشر نقوی، سید مظاہر نقوی، سید رضا نقوی، سید موسی رضا و دختران و گرینڈ چلڈرن بڑی مولائی اور عزادار ہیں۔ انکے کمرے میں ہمیشہ نعت رسول ص ، منقبت، قصیدے ، نوحے، مجالس، محافل کی ریکارڈنگ لگی رہتی۔ مولا علی علیہ اسلام کے فضائل بہت سنتے دیکھتے تھے۔ مجالس میں پھوٹ پھوٹ کر روتے تھے۔ اللہ کریم مرحوم کو جوار اہل بیت علیہ اسلام میں جگہ دے اور انکی آخرت کی منزلیں آسان ہوں۔
٭٭٭