کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں!!!

0
40

پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے، تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا۔مصنوعی ذہانت، خلائی اسٹیشنز اور انتہائی تیز رفتار جیٹ طیاروں کے اس دور میں واقعہ اسری و معراج کو سمجھنا کافی آسان ہے۔ شاید اسی وجہ سے ہماری نئی نسل بھی نبی اکرم ۖ کے اس معجزے کے بارے میں کوئی زیادہ سوال نہیں کرتی۔ ذرہ تصور کیجئے پندرہ سو سال پہلے کے اس دور کا جب نہ بجلی کا بلب ایجاد ہوا تھا، نہ خلائی راکٹ تھے، نہ سمارٹ فون موجود تھے اور نہ ہی جیٹ طیاروں کا زمانہ شروع ہوا تھا۔ اس وقت کے انسانوں کے سامنے جب نبی اکرم ۖ نے اپنا یہ معجزہ بیان کیا ہوگا تو ان کیلئے اس پر ایمان لانا کتنا مشکل رہا ہوگا۔ اسی لئے ہمارے علما اور فقہا نے قرآن و حدیث میں بیان ہونے والے اس واقعے کی وضاحت کیلئے، تفاسیر کا ایک بہت بڑا حصہ مختص کیا ہوا تھا۔ اس وقت کے لحاظ سے شاید اس کی ضرورت بھی تھی۔نبی اکرم ۖ کے اس معجزہ اسری و معراج کی جو تشریح، علامہ اقبال نے اپنے ان اشعار میں کی ہے، مجھے بھی وہی سب سے زیادہ پسند ہے۔
وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں
خدا مجھے نفس جبرئیل دے تو کہوں
ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخی افلاک میں ہے خوار و زبوں
حیات کیا ہے خیال و نظر کی مجذوبی
خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گوناں گوں
عجب مزہ ہے مجھے لذت خودی دے کر
وہ چاہتے ہیں کہ میں اپنے آپ میں نہ رہوں
ضمیر پاک و نگاہ بلند و مستء شوق
نہ مال و دولت قاروں نہ فکر افلاطوں
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکوں
اللہ ربِ العالمین نے اپنی پیارے نبی اکرم ۖ کو مستقبل کی رہتی دنیا تک ہونے والی انسانی ترقی سے آگاہ کرنے کیلئے یہ معجزہ برپا کیا۔ ماضی کے سارے انبیا کرام سے ان کی ملاقات بھی ہوئی اور ان کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، انہوں نے اپنی امت پر عائد شدہ فرائض میں بھی تخفیف کروائی۔ مسجدِ اقصی میں امام الانبیا کی حیثیت سے امامت کی سعادت حاصل کرتے ہوئے، اس مسجد کے برکت والے ماحول سے بھی استفادہ فرمایا۔ اللہ کی پاک ذات نے اپنے بندہ خاص ۖ کو سدرالمنتہی کے سفر کے ذریعے کائنات کی نشانیوں کا مشاہدہ بھی کروایا۔ جدید ٹیکنالوجی بھی شاید ان نشانیوں میں سے ایک ایسی نشانی ہو جن کا ذکر یہاں قرآنِ مجید میں آیا ہے۔تیس ،پینتیس سال قبل جب میں شکاگو کی ایک یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہا تھا تو Artificial Intelligence یعنی مصنوعی ذہانت ایک مضمون کی حیثیت سے پڑھائی جاتی تھی۔ مجھے تو اس تصور سے ہی خوف آتا تھا کہ مشین ایک دن اتنی ذہانت حاصل کر لے گی کہ انسان سے بہتر سوچنا شروع کردے گی لیکن پھر یہ خیال کرکے کہ ہنوز دلی دور است، اطمینان ہو جاتا تھا۔ پھر ایک مرتبہ جب کچھ دن اپنے قریبی دوست ڈاکٹر فیاض چوہدری صاحب کے ہاں انڈیانا میں رہنے کا اتفاق ہوا تو فکر زیادہ بڑھ گئی۔ فیاض بھائی پرڈیو یونیورسٹی میں الیکٹریکل (پاور) انجینئرنگ میں نیورو نیٹ ورکس پر اپنی پی ایچ ڈی کیلئے ریسرچ کر رہے تھے۔ انہوں نے جب یہ بتایا کہ مشین لرننگ Machine Learning کے اصولوں کے مطابق وہ اپنے نیورو نیٹ ورکس کو پاور گرڈ کی آٹومیٹک مینجمنٹ سکھا چکے ہیں تو ہمارے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے کہ گردوں تو ابھی سے ہی عالم بشریت کی زد میں آچکا ہے۔ اس پہ طرہ امتیاز یہ کہ سمجھانے والے ہمارے پیارے ساتھی فیاض چوہدری صاحب تھے، جو غبی اور نالائق ترین فرد کو بھی اس قدر زور و تفصیل سے سمجھاتے تھے کہ اسے مشکل سے مشکل تصور بھی سمجھنا پڑ جاتا تھا۔آج کی مصنوعی ذہانت کی ترقی، پہلے سے موجود ٹیکنالوجی کو مزید مہمیز کر رہی ہے۔ بس اس ساری بے اطمینانی میں ہمارے لئے اُمید کی کرن اس قرآنی آیت کا یہ آخری حصہ ہے کہ ِنہ ہو السمِیع البصِیر یعنی حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا۔اسری و معراج کے اس معجزے سے دنیا کے مظلوم و مقہور انسانوں کو اُمید کی ایک کرن بھی نظر آتی ہے۔ شعبِ ابی طالب کی سختیوں کے بعد جب نبی اکرم ۖ کے سب سے بڑے مدد گار حضرت خدیجہ اور ابو طالب بھی دارِ فانی سے کوچ کر جاتے ہیں تو نبی اکرم ۖ غم و حزن کی افسوس ناک صورتحال میں گھِر جاتے ہیں۔ اس کیفیت کو کم کرنے کیلئے، اللہ ربِ العالمین کی پاک ذات نے اپنے پیارے نبی اکرم ۖ کو معراج کا یہ معجزہ عطا کیا۔ اسری و معراج کا یہ واقعہ، دنیا کے تمام مظلوموں کی ڈھارس بندھاتا ہے کہ ہر سیاہ رات کی ایک درخشاں صبح ضرور ہوگی۔
سنجر غازیپوری کے بقول،
غم کی کٹی جو رات تو راحت کی صبح ہے
وہ شام ،شام کیا ہے کہ جس کی سحر نہیں
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here