محترم قارئین آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے ہر چند کے آجکل مختلف موضوعات پر متواتر ہفتہ وار کالم قارئین کی نذر کررہا ہوں لیکن زمانہ کی تیز رفتار اور ضرورت کے تحت بسا اوقات پچھلے موضوعات سے ھٹ کر لکھ دیتا ہوں اس کوتاہی کی معزرت قبول فرمائیں ۔اس سے پہلے بھی عرض کرچکا ہوں احکام الہٰی سے دنیا کو دور کرنے کیلئے ہر وہ کوشش کی جاتی رہی جس سے نہ صرف لوگوں کو گمراہ کیا جاتا رہے بلکہ اپنا شیطانی مدعا بھی پورا ہوتا رہے اگر کوئی مذہب اور احکام کی کھل کر دشمنی کرتا ہے تو اس کو وہ مذہب اور اسکے ماننے والے مسترد کردیتے ہیں اور جان جاتے ہیں کہ یہ سازش ہے اور اس سے ہوشیار رہا جائے مثلا ختم نبوت پر ایمان لانا اس بابت ایک فتنہ گھڑا گیا آج وہ مسائل کا گڑھ ہے جس سے جان چھڑانا مشکل ہوگیا ہے البتہ صاحبان ایمان ایسے لوگوں سے دوری اختیار کرتے ہیں ظاہر ہے جو نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کی حرمت کا قائل نہیں اس سے اہل ایمان کا کیا لینا دینا۔ مذہب اسلام میں کچھ چیزوں کی ممانعت کی گئی ہے اور ان کو حرام قرار دیا گیا اسی وجہ سے مسلمان اور صاحب ایمان لوگ ان چیزوں سے اجتناب کرتے ہیں مثلا خنزیر حرام ہے مسلمان اس کو نہیں کھاتے اب کس طرح اس کو مسلمانوں کو کھلایا جائے اسکا ایک حل یہ نکالا گیا اسکے جزئیات حاصل کرو اور انکو کھانے پینے کی اشیا میں ملا دو پھر اس طرح مرد و خواتین اور بچوں کو کس طرح نشانہ بنایا جائے !؟ بچوں کیلئے کریم کینڈی اور چپس و پیزا میں شامل کیا جانا جبکہ خواتین کیلئے چربی کو میک آپ میں ملایا گیا اور مردوں کیلئے ملٹی وٹامن اور دوائوں میں اسکے جزئیات کو کوڈ کی شکل میں شامل کردیا گیا بہت سے لوگ اپنے نافرمان بچوں کی شکایات اور بے راہ روی کیلئے تعویز والے بابائوں اور نجومیوں کی جیبیں بھرتے پریشان ملے اب یہ مسئلہ مغربی ممالک کا نہیں رہا بلکہ مشرق میں اور زیادہ برا حال ہے ۔اگر آپ ہواء سفر کریں اور مشاھدہ فرمائیں کہ ساتھ سفر کرنے والا یہودی کوشر کھانا آڈر کریگا جس کی سیل وہ خود توڑے گا اسکا مطلب سو فیصد حلال ہے انکے احکام کے مطابق اب آپ مثال لیں مسلمانوں کی جن کا حلال بھی دس مختلف اقسام کا ہے کچھ جھٹکا بھی تکبیر و بسم اللہ کے بعد حلال کہتے ہیں جبکہ کچھ زبیحہ حلال جبکہ کچھ کو پرواہ نہیں اللہ کا رزق جانا بسم اللہ کہا ڈکار لی اور کہانی ختم ! اتنی تمہید اور باتیں و مثالیں لکھنے کا مقصد کسی کو بھی اعتراض کرنا یا اسکے طریقے کو غلط بیان کرنا نہیں ہے بلکہ مقصد اتنا ہے جو طریقہ ہم ہر سال بچپن سے سنت ابراہیمی ادا کرتے عیدالاضحی کے موقع پر اپناتے ہیں اس میں کسی بھی فقہ یا مسلمان کو اعتراض نہیں ہوسکتا اگر طور طریقہ پر اور شرائط پر حلال جانور کو غذا کیلئے قربان کیا تو وہ کھانے کے بعد اثرات جو جسم و روح پر چھوڑے گا وہ مثبت ہی ہونگے کیونکہ صرف ہم ہی نہیں اہل مغرب بھی غذا کے اثرات کے قائل ہیں اور اس کا خیال کرتے ہیں ۔جب آپ اپنے اولیا و بزرگوں کا تزکرہ کرتے ہیں تو ان میں مخصوص لوگ جوکہ دنیا کو اسلام کا پیغام اور راہ حق پر گامزن کرنے میں کامیاب رہے کیونکہ انکی باتوں کا اثر دل پر ہوا کرتا تھا آج رشد و ھدایت بہت سے چینلز پر چوبیس گھنٹے ہوتی ہے لیکن اسکا وہ اثر دلوں پر کیوں نہیں ہوتا کیوں خاص طور پر نوجوان نسل اتنی بے راہ روی پر کیوں جارہی ہے ضرور کچھ تو ہوا ہے جو ان پر اثر نہیں ہوتا !
سود ، خنزیر ، مردار ، شراب یہ سب اسلام میں حرام ہیں اب کوء ان اشیا کا استعمال کریگا تو لامحالہ اس کے اثرات روح پر قلب پر مرتب ہونگے کون نہیں جانتا ٹھنڈی مرغی اب جگہ جگہ مسلمان ملک میں استعمال ہوتی ہے یہ انسان کے قلب کو سخت بنادیتی ہے یہی وجہ انسان دوسرے انسان کے ایکسیڈنٹ کا کلپ بناتے نظر آتے ہیں اس تڑپتے انسان کی مدد نہیں کرتے یہ مشرقی اقدار کے خلاف ہے کیونکہ مردہ مرغی نے انسانوں کے قلوب کو مردہ کردیا ہے اب وہ اپنا ہو یا پرایا اس پر رحم نہیں کرتے دنیا میں اپنوں کے ہاتھوں بڑھتی ازیت و زیادتیوں کے کیسز گواہ ہیں ۔دعاگو ہوں اللہ ہم کو اور ہماری نسل کو ہر قسم کی حرام غزا سے محفوظ فرمائے تھوڑی احتیاط کریں مشکل ہے ناممکن نہیں پھر دیکھیں آپ کی دعائیں بھی قبول ہونگی اور باتوں میں بھی اثر ہوگا ان شااللہ !ملتے ہیں اگلے ہفتے اجازت دیں اس دعاکی ساتھ کہ اللہ پاک ہمیشہ رزق حلال طیب غزا ہر کلمہ گو اہل ایمان کو نصیب فرمائے اور ہر حرام لقمہ سے ہم کو محفوظ رکھے آمین
٭٭٭