فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ
محترم قارئین! حج بھی اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہے۔ جب حج کی فرضیت کی شرائط پوری ہوجائیں تو اس کی ادائیگی میں ٹول مٹول اور تاخیر نہیں کرنی چاہئے جس طرح عام لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ حج کے فرض ہونے کی تمام شرائط موجود ہیں لیکن آج کل کرتے ہوئے صحت گنوا بیٹھتے ہیں اکثر تو عدم ادائیگی کا جرم لے کر قبر میں چلے جاتے ہیں اور بعض ادا کرنے جاتے ہیں تو صحت نہ ہونے کی وجہ سے ارکان حج صحیح طرح ادا نہیں کر پاتے۔ ہونا تو ایسے چاہئے کہ جب بھی خدا اتنا دے کہ اس خوش گوار فریضے کو ادا کرسکیں تو پہلی فرصت میں روانہ ہوجانا چاہئے۔ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں کہ ہم اس فریضے کو ایک سال سے دوسرے سال پرٹالتے رہیں۔ قرآن پاک میں ہے۔ ترجمہ: ”اور لوگوں پر خدا کا یہ حق ہے کہ جو اس کے گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے اور جو اس حکم پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ خدا سارے جہان والوں سے بے نیاز ہے”(سورہ آل عمران پارہ نمبر4)
انسان کی اس سے بڑی تباہی اور محرومی کیا ہوگی کہ خدا اس سے بے نیازی اور بے تعلقی کا اعلان فرمائے۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ جو شخص حج کا ارادہ کرے اسے حج کرنے میں جلدی کرنی چاہئے کیونکہ ممکن ہے کہ وہ بیمار پڑ جائے۔ ممکن ہے اونٹنی یعنی سواری کھو جائے اور ممکن ہے کہ کوئی اور ایسی ضرورت پیش آجائے کہ حج ناممکن ہوجائے۔(ابن ماجہ) مطلب یہ ہے کہ وسعت ہونے کے بعد خواہ مخواہ ٹال مٹول نہ کرنی چاہئے معلوم نہیں آئندہ یہ ذرائع روسعت باقی رہے یا نہ رہے اور پھر خدا نخواستہ انسان حج بیت اللہ جیسی عظیم سعادت سے محروم رہ جائے۔ خدا اس محرومی سے ہر بندہ مئومن کو بچائے رکھے۔ نبیۖ کا ارشاد گرامی قدر ہے کہ:”جس شخص کو کسی بیماری نے یا کسی واقعی ضرورت نے یا کسی جابر وظالم حکمران نے روک رکھا ہو اور پھر بھی وہ حج نہ کرے تو چاہے وہ یہودی مرے یا نصرانی مرے”(سفن کبریٰ جلد نمبر4)اور حضرت عمر کو یہ کہتے سنا گیا ہے کہ” جو لوگ قدرت رکھنے کے باوجود حج نہیں کرتے میرا جی چاہتا ہے کہ ان پر جزیہ لگا دوں وہ مسلمان نہیں ہیں۔ وہ مسلمان نہیں ہیں۔”(المنتقیٰ) خدا کے گھر کی زیارت اور حج صرف خدا کو خوش کرنے کے لئے کرنا چاہئے کسی اور دنیاوی عرض سے اپ پاکیزہ مقصد کو آلودہ نہ کرنا چاہئے۔ جس طرح یہ بھی عام دیکھنے میں آتا ہے قرآن پاک میں ہے: اور نہ ان لوگوں کو چھیڑو جو اپنے رب کے فضل اور اس کی خوشنودی کی تلاش میں احترام والے گھر کی طرف جارہے ہیں؟(المائدہ پارہ نمبر6) فرمان خداوندی ہے۔”حج اور عمرے کو صرف خدا کی خوشنودی کے لئے پورا کرو”(البقرہ پارہ نمبر2) اور نبی اکرمۖ کا ارشاد گرامی قدر ہے کہ ”حج سرور کا صلہ تو جنت سے کم ہے ہی نہیں”(مسلم شریف کتاب الحج) حج سرور وہ حج ہے جو محض خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے پورے آداب شرائط کے ساتھ کیا گیا ہو کوشش کرنی چاہیے کہ حج کے لئے جانے کا چرچا نہ ہو۔ خاموشی جانا چاہئے اور واپسی کرنی چاہئے۔ اور ہر اس رسم اور طریقے سے سختی کے ساتھ بچنا چاہئے جس میں نمود ونمائش اور دکھلاوے کا شائبہ ہو تو ہر عمل کے عمل صالح اور عمل مقبول ہونے کا انحصار اس پر ہے کہ وہ محض خداتعالیٰ کے لئے ہو اور محبت مصطفیٰۖ سے لبریز ہو اور کسی دوسری خواہش کا اس میں آمیزہ بھی نہ ہو۔ لیکن خاص طور پر حج میں اس کا اور زیادہ دھیان رکھنا چاہئے کیونکہ یہ روحانی انقلاب اور تزکیہ نفس واخلاق کی ایک آخری تدبیر ہے۔ اور جو روحانی مریض اس جامع علاج سے بھی شفایاب نہ ہو پھر اس کی شفایابی کی امید کسی دوسرے علاج سے بہت ہی کم رہ جاتی ہے۔ حج جانے کی وسعت نہ بھی ہو تب بھی خدا تعالیٰ کے گھر کو دیکھنے کی تمنا اور خواہش اور رسول اللہۖ کے روضہ انور کی زیارت کی تڑپ ضرور رکھنی چاہئے اور حج سے پیدا ہونے والے ابراہیمی علیہ السلام جذبات سے اپنے سیلے کو آباد وشاد رکھنا چاہئے۔ ان جذبات کے بغیر کوئی سینہ مئومن کا سینہ ہی نہیں۔ بلکہ ایک ویران کھنڈر ہے۔
حضور نبی اکرمۖ نے ارشاد فرمایا ہے:”حج اور عمرے کے لئے جانے والے خدا سے خصوصی مہمان ہیں۔ وہ خدا سے دعا کریں تو خدا قبول فرماتا ہے اور مغفرت طلب کریں تو بخش دیتا ہے؟(طبرانی) حج کے لئے بہترین زادراہ تقویٰ ہے اور اس پاکیزہ سفر کے دوران خدا کی نافرمانیوں سے بچنے اور حج بیت اللہ کی برکتوں سے زیادہ سے زیادہ مستفیض ہونے والا بندہ وہی ہے جو ہر حال میں خدا سے ڈرتا ہے اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کا والہانہ رکھتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے۔”اور سفر حج کے لئے زاد راہ ساتھ لو اور سب سے بہتر زادراہ خدا کا تقویٰ ہے؟(سورہ بقرہ پارہ نمبر2) حج کے دوران جو مسنون دعائیں اور احادیث کی کتب میں ملتی ہیں انہیں محلوظ خاطر رکھنا چاہئے۔ زبانی یادہوں تو بہت بہتر یا پھر کتاب کی شکل میں حاصل کریں اور اوپ سے دیکھ کر پڑھتے رہنا چاہئے اور چاہئے کہ عربی الفاظ میں اسی طرح ادا کریں جس طرح حدیث مبارکہ میں ہیں۔ یہ اجابت کے لئے زیادہ مجرب ہے اگر نہ پڑھ سکے تو عربی کی بجائے اپنی اپنی زبان میں دعا مانگنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ کی خیر فرمائے تمام تر فرائض کو بشمول حج کے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭