نیاسال مدیرانہ

0
159
مجیب ایس لودھی

ہر سال کے اختتام پر نیا سال آتا ہے لیکن معمولات زندگی ہیں کہ ٹس سے مس ہونے کا نام نہیں لیتے ہیں، ایک کے بعد ایک تاریخ اُسی رفتار سے گزرتی جا رہی ہے اور ہم اپنی زندگی کی کتاب کے اوراق ایک ایک کر کے پلٹے جا رہے ہیں، نئے سال کی آمد پر جشن ضررور ہوتا ہے ، آتشبازی سے نیا سال شروع کیا جاتا ہے لیکن یہ شغل میلہ بس ایک آدھ گھنٹے تک چلنے کے بعد بند ہو جاتا ہے اور پھر زندگی اسی ڈگر پر چل پڑتی ہے ،امریکہ سمیت یورپ میں تو ہو سکتا ہے کہ ہر سال نئے اقدامات ، ترقی کرتی سائنس زندگی کو نئے دور میں ڈھلنے پر مجبور کرتی ہے لیکن پاکستان جیسے ملک میں ایسا کوئی منظر نامہ نہیں ہوتا ہے، بس نیا سال آتشبازی کی نظر ہوجاتا ہے باقی معاملات اگلی صبح سے پھر اسی طرح سر پر سوار ہوتے ہیں۔
نئے سال کے آمد کے ساتھ ہی عوامی شکایات اور توقعات کے انبار لگے نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں، پاکستانی کے عوام کے مطابق 2020ء مشکلات اور تکالیف کا سال رہا لیکن عوام کو ریلیف دینے میں حکومت کو بھی ناکام قرار دیا جارہا ہے ، نئے سال کے آغاز پر ہی حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ تشویشناک اور دوسری جانب گیس اور بجلی کی قلت کے ساتھ مہنگائی و بے روزگاری میں اضافہ وہ مسائل قرار دیئے جارہے ہیں جن کی جانب حکومتی وزراء کی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے یعنی غریب کے لیے نیا سال کوئی تبدیلی نہیں لا سکا ہے ، وہ اسی ڈگر پر کھڑا ہے جہاں وہ گزشتہ سال کھڑا تھا، وزیراعظم عمران خان نے سال 2021ء کیلئے اپنی حکومت کے دو اہداف مقرر کئے ہیں جن میں پہلا خیبرپختونخوا ،پنجاب اور گلگت بلتستان میں یونیورسل صحت کوریج فراہم کرنا اور دوسرا اس بات کو یقینی بنانا کہ کوئی بھوکا نہ سوئے۔
حقیقت تو مگر حقیقت ہے کوئی کتنا ہی انکار کرے، جھٹلانے کی کوشش کرے اور قوم کی حقیقت تو یہ ہے کہ دو وقت چھوڑ ایک وقت کی روٹی کا کوئی جھوٹا موٹا ہی بندوبست بھی یہ تقریر نہیں کر پائے گی۔عوام کو دیکھیں تو وہ غربت مہنگائی بی یقینی بے بسی کی ظالم چکی میں پستے ہی چلے جا رہے ہیں۔اس ملک میں غریب، غریب ترین ہوتا چلا جا رہا ہے اور امیر مزید امیر ترین۔ طبقاتی تقسیم خطرناک حد تک بڑھتی چلی جا رہی ہے جو نظام کی آخری بربادی کی پہلی دلیل ہے۔
نہ حکومت کو غریب کا احساس نہ اپوزیشن کو عوام کی پرواہ۔ روزانہ کی بنیاد پر غریب کے لیے مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے، جینا دوبھر ہو گیا، لیکن اپوزیشن محض جلسے جلوسوں پر اکتفا کرے گی۔غریب کی زندگی آج کل مشکل میں ہے، اپوزیشن احتجاج کرے گی اگلے سال جنوری میں۔ حکومت کو دیکھیے تو لگتا ہے جیسے سیاسی عمر خضر کہیں سے لکھوا کر لے آئے ہیں وگرنہ جتنے غریب کش فیصلے روزانہ کی بنیاد پر کئیے ہیں، ووٹ مانگنے کے لیے جانا باعث شرم و حیا ہی ہوتا۔
حال ہی میں دوائیوں کی قیمت میں جو ہوش ربا اضافہ کیا گیا ہے وہ بیچارے غریب عوام کیلیے مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق ہے۔ اس قدر ہولناک مہنگائی اور وہ بھی صحت جیسے شعبے کیئیے اربوں کھربوں کا سکینڈل ہے یہ ادویات کی مہنگائی کا۔ کون کون مال بنا رہا ہے کون کون ملوث ہے، مافیا کے آگے گھٹنے کس نے ٹیک دیئے؟ کون کتنا کمیشن کھا رہا ہے؟ سچائی کھل جائے تو حکومت لرز جائے لیکن یہاں غریب کی پرواہ ہی کسے ہے۔ ووٹ نہ تو غریب عوام سے لیا نہ جوابدہی غریب عوام کو ہے۔
نہ جانے پاکستان کے عوام کا اچھا وقت اب کب آئے گا، فی الحال مستقبل قریب میں تو اس کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ اس قدر بے یقینی ہے مایوسی ہے حالات کی تنگی ہے کہ عوام ذہنی مریض بنتے چلے جا رہے ہیں۔ ہر فرد آنے والے وقت سے پریشان ہے لیکن ٹھہرئیے رکئے ،اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی کی کرن نظر آ رہی ہے ، مسیحائی کی اُمید بندھ رہی ہے،دین ابھی بھی ہماری راہ کو روشن کیے ہوئے ہے ، اب غریب عوام کے پاس ایک ہی اُمید باقی بچی ہے ، کہ وہ اللہ تعالیٰ سے لو لگا کر دین اوردنیا میں کامیابی کے لیے دعائیں کرے کہ کوئی ایسا مسیحا آئے جو اپنی حکومت کا آغاز ہی غریب عوام سے کرے ،جس کی حکومت میں کھوکھلے نعروں ، جھوٹے وعدوں کی کوئی گنجائش موجود نہ ہو، صرف ترقی ہی اس قوم کی منزل ہو، اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے ، ہر رات کے بعد دن ہے ، روشنی ہے، زوال کو ضرور عروج بھی ہے ، میں دعا گو ہوںکہ نیا سال پاکستان، امریکہ سمیت پوری دنیا کے لیے پرامن ثابت ہو، خاص طور پر مسلمانوں کیلئے یہ سال پُر رحمت ثابت ہو، امین !

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here