اگر معروضی نقطہ نظر سے اِس پہلو پر تبصرہ کیا جائے تو جوابا” عرض صرف یہی ہوگا کہ ” یقینا ” بھارت کی تمام مشینریزاِس ضمن میں کام کرنا شروع کردیں ہیں، ویڈیوز اور پوسٹس صد فیصد جھوٹ پر مبنی ہندوؤں پر بنگلہ دیش پر حملے کی منظر عام پر آرہی ہیں، یہ سوشل میڈیا پر اُن افراد کی جانب سے پیش کی جارہی ہیں جن کا تعلق بھارتی لابی سے یا انتہا پسند دائیں بازو سے ہے، شیخ حسینہ کی حکومت کی 5 اگست کو معزولی اور بنگلہ دیش سے بھارت فرار ہونے کے بعد اکا دُکا ہندوؤں پر حملے کی رپورٹ اخباروں کی زینت بنی تھیں اگرچہ یہ رپورٹس نا قابل تردید نہیں تھیں کہ بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی جائیدادوں کو نقصانات پہنچائے گئے تھے، لیکن اِس کے ساتھ جعلی خبروں کا ایک طوفان بھارت کے طول و عرض میں اُمنڈ پڑا تھا ، اور یہ پروپیگنڈا کیا جارہا تھا کہ بنگلہ دیش میں ہندوؤں کا قتل عام اور اُن کے گھروں اور دکانوں کو نذر آتش کیا جارہا ہے،اِسی طرح کی ایک ویڈیو میں یہ دکھایا جارہا تھا ایک عورت اپنے شوہر کی جان کی امان کیلئے بھیک مانگ رہی ہے، اور دوسری ویڈیو میں ہندوؤں کی مندر کو خاکستر ہوتے ہوئے دکھایا گیا تھا لیکن جب بی بی سی کے نمائندے نے اِن وارداتوں کی تحقیقات کیں تو اُس نے مندر کو صحیح و سالم پایا اور ہندوؤں پر حملے کی ویڈیوکی بھی اُسے کوئی نشانی نہیں ملی البتہ بی بی سی کے نمائندے کو یہ بتایا گیا کہ زمین کے تنازع کے سلسلے میں ایک جھگڑا چند عرصے سے چل رہا تھا اور فریقین میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے. اِس سلسلے میں ایک مقدمہ کورٹ میں بھی دائر تھا، بی بی سی کے نمائندئے نے جب اُس علاقے کے لوگوں سے دریافت کیا تو وہ اِس بات کی تصدیق کی کہ جھگڑا کوئی مذہبی بنیاد پر نہیں ہوا تھا اور اِس تصادم میں ہندو کی کوئی فیملی متاثر نہیں ہوئی تھی، ایک دوسری ویڈیو جو برطانیہ کے ایک دائیں بازو کے انتہا پسند ٹامی رابنسن نے لگائی تھی اُس میں یہ دکھایا گیا تھا کہ 17 اگست کو بدرانساء کالج ڈھاکا میں عوامی لیگ کی طلبا تنظیم چھاترا لیگ کے اکٹوسٹوں کو کھمبوں سے باندھ دیا گیا ہے،دراصل یہ ویڈیوآئسس شام کی ہے جسے اپنا نمبر بڑھانے کیلئے بنگلہ دیش کا نام دے کر پیش کر دیا گیا ہے،ٹامی رابنسن جو انگلینڈ میں مسلمانوں اور مائیگرنٹس کے خلاف سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز خبریں پھیلانے کیلئے ایک بدنام زمانہ شخص ہے ، بنگلہ دیش سے آئے ہوے غیر مصدقہ ویڈیو جس میں یہ دکھایا جارہا ہے کہ وہاں ہندوؤں کی نسل کشی کی جارہی ہے، اُس کی وہ منظر کشی کرکے بنگلہ دیش کو بدنام کرنے کی کوشش کررہا ہے، یہ پروپگنڈا بھی کیا گیا کہ بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم کے ہندو کھلاڑی لِٹن داس کے مکان کو آگ لگا دی گئی ہے لیکن جب بی بی سی کے نمائندے نے اُس علاقے کا دورہ کیا تو اُس پر یہ حقیقت افشا ہوئی کہ وہ مکان ہندو کرکٹر کا نہیں بلکہ بنگلہ دیشی مسلمان ممبر آف پارلیمنٹ کا تھا جس کی وابستگی عوامی لیگ سے تھی،بہرکیف یہ تو تھی کارکردگی بھارت کی جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے، عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت بنگلہ دیش میں متعدد راہوں سے حملہ آور ہوگا، بھارت اپنی دراندازی کیلئے اُن ہی حربوں کو استعمال کریگا جو اُس نے 1971 ء کی جنگ میں پاکستان کے خلاف استعمال کیا تھا، یعنی بنگلہ دیش میں ہزاروں کی تعداد میں اپنے اِنفلٹریٹرز کو بھیج دیگا، بنگلہ دیش کی 17 کروڑ کی آبادی میں کم از کم ڈیڑھ کروڑ بھارت کے ہمنوا ہندو ہیںجنہیں بھی بھارت مسلح کرسکتا ہے، بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی جان و مال کی حفاظت کیلئے بھارت فوجی مداخلت بھی کر سکتا ہے۔معاشی پہلو میں بھی بھارت کے پاس کئی ٹرمپ کارڈ موجود ہیں. اگست 5 سے قبل تک بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہ تھی کہ اُن کا ایک حواری ملک اِس تیزی سے اُن کے ہاتھ سے نکل جائیگا، ورنہ کوٹہ سسٹم کے مطالبے کو ختم کرنے کیلئے بھارت بنگلہ دیش کو دس بلین ڈالر کی امداد کی بھی پیشکش کر سکتا تھا اگرچہ بنگلہ دیش کی بھارت سے علیحدگی کی صورت میں آخر الذکر ملک کو ایک چھوٹا سے دھچکا پہنچا ہے، بھارت کی ٹورازم انڈسٹری جہاں نوے فیصد سیاح بنگلہ دیش سے آیا کرتے تھے ٹھپ ہوکر رہ گئی ہے،بھارت کو بنگلہ دیش کو ایکسپورٹ کی ہوئی 10 بلین ڈالر کی رقم جس میں ٹیکسٹائل سر فہرست تھی اور متفرقات میں پیاز ، لہسن وغیرہ بھی شامل تھے ، اُس کے ہاتھ سے نکلتی ہوئی نظر آرہی ہے، بنگلہ دیش کے عوام بھارت سے اتنا زیادہ نفرت کرنے لگے ہیں کہ وہ بھوکے رہنے کو ترجیح دے سکتے ہیں لیکن بھارت سے کوئی اشیا خریدنے کو تیار نہیںتاہم دیگر پیچیدگیاں بنگلہ دیش میں ایک مستحکم حکومت کے قیام کیلئے درد سری بن سکتی ہیں،اِس بات کا اندازہ کرنا تاہنوز مشکل ہے کہ بنگلہ دیش کے چیف آف سٹاف جنرل وقار الزمان کے تعلقات ایک غیرمنتخب سویلین وزیراعظم سے کتنے دِن تک نبھ سکتے ہیں، جبکہ موصوف کی بیوی شیخ حسینہ کی کزن بھی ہیں، خبر آئی ہے کہ جنرل وقارالزمان عوامی لیگ سے تعلق رکھنے والے 650 افراد جن میں پولیس کے اعلیٰ افسران، ممبرز آف پارلیمنٹ ، ججز ، اعلی بیوروکریٹس اور سابق وزیراعظم کے مشیروں کو اپنے گیریسن میں پناہ دی ہوئی ہے،اُن کا موقف ہے کہ وہ کسی کو ماؤرائے عدالت قتل کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے تاہم اِس امر میں کوئی مضائقہ نہیں کہ وقت کی مسافت کے ساتھ ساتھ اُن افراد کو اپنے گھر بھیج دیا جائے،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت پاکستان بنگلہ دیش کے انقلاب سے خود کتنا فائدہ پہنچا سکتی ہے،کیا وہ بنگلہ دیش سے وسیع پیمانے پر تجارتی و فوجی معاہدے کرنے کی استطاعت رکھتی ہے؟ یہ ساری حقیقتیں چند ہفتے میں عیاں ہوجائیں گی۔