تاعمر نااہلی کا باب بند؟

0
71

قومی اسمبلی نے نااہلی کی سزا پانچ سال کرنے کے بل کو اتفاق رائے سے منظور کر لیا ہے جس سے سیاستدانوں کی تاعمر نااہلی کا باب ختم ہو جائے گا۔ نئے بل کی منظوری کے بعد نوازشریف اور جہانگیر ترین سمیت کئی سیاستدان انتخابات میں حصہ لے سکیں گے۔ یہ بل سینیٹ سے پہلے ہی منظور ہو چکاہے۔ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا بل منظوری کے لئے وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے سپلیمنٹری ایجنڈے پر قومی اسمبلی میں پیش کیا جسے اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا۔ بل میں آئین کے آرٹیکل 62ون ایف کے ساتھ الیکشن اصلاحات 2017ء میں بھی ترمیم کی گئی ہے۔ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57میں ترمیم کے بعد آئین میں جہاں بھی جرم کی سزا کا تعین نہیں کیا گیا وہاں نااہلی کی سزا زیادہ سے زیادہ پانچ سال تک ہو سکے گی۔ سپریم کورٹ، ہائیکورٹ یا کسی بھی عدالتی فیصلے آرڈر یا حکم کے تحت سزا یافتہ شخص کی نااہلی فیصلے کے دن سے پانچ سال شمار ہوگی اور بل کے مطابق سزا کے بعد متعلقہ شخص پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کا رکن بننے کا اہل ہوگا۔ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا اختیار اب الیکشن کمیشن کو حاصل ہو گا اور وہ صدر کی مشاورت کے بغیر بھی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر سکے گا۔ اِسی طرح الیکشن کمیشن نیا شیڈول دینے اور اْس کے بعد الیکشن پروگرام میں تبدیلی کا مجاز بھی ہوگا۔
صدر ڈاکٹر عارف علوی اِن دنوں حج کی سعادت حاصل کرنے کے لئے سعودی عرب میں ہیں، اْن کی غیر موجودگی میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی قائم مقام صدر کے طور پر بل پر دستخط کردیئے ہیں۔سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے 2017ئ میں پانامہ پر ازخود نوٹس کے تحت مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور تین بار کے وزیراعظم نوازشریف کو تاحیات نااہل قرار دیا تھا۔ جسٹس (ریٹائرڈ) آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس (ریٹائرڈ) اعجاز افضل، جسٹس (ریٹائرڈ) عظمت سعید شیخ، جسٹس (ریٹائرڈ) گلزار احمد اور جسٹس اعجاز الاحسن اْس بینچ کا حصہ تھے جس نے سزا سنائی تھی۔
حال ہی میں بننے والی استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ اور اْس وقت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما جہانگیر ترین کو بھی اثاثہ جات کیس میں سپریم کورٹ نے تاحیات نااہل قرار دیا تھا۔ اب یہ دونوں رہنما آنے والے قومی انتخابات میں حصہ لے سکیں گے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ چونکہ تاحیات نااہلی کا فیصلہ دے چکی ہے لہٰذا اِس سزا کو پانچ سال کرنے کے لئے آئینی ترمیم ضروری ہے تاہم یہ اْس وقت کی بات ہے جب معاملہ عدالت میں پہنچے گا یا پہنچایا جائے گا۔ پارلیمنٹ نے بظاہر مناسب قانون سازی ہی کی ہے، سیاست دان طویل سیاسی ریاضت اور تپسیا کے بعد پارلیمنٹ میں پہنچتا ہے۔ اْس کی پشت پر عوام کا اعتماد اور اْن کے دیئے گئے ووٹوں کا مینڈیٹ ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سیاستدانوں کے احتساب کا سب سے بہترین پلیٹ فارم انتخابات ہی ہوتے ہیں، جہاں عوام کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ کا اعتماد دیتے ہیں یا ووٹ نہ دے کر احتساب کرتے ہیں۔ پانامہ کیس میں میاں نوازشریف کے کیس میں کوئی واضح کرپشن ثابت نہیں ہو سکی تھی اور اْنہیں بیٹے کی کمپنی سے وصول نہ ہونے والی تنخواہ کو ڈیکلیئر نہ کرنے پر تا حیات نا اہل قرار دے دیا گیا تھا۔ پانامہ کیس میں سینکڑوں افراد کو فریق بنایا گیا تھا تاہم سزا صرف نوازشریف کو دی گئی جن کا نام تک کہیں نہیں تھا۔کسی بھی فرد کو تا عمر کے لئے سیاست سے نا اہل قرار دے دیا جانا انسانی حقوق کے اصولوں سے متصادم نظر آتا ہے خصوصاً جب سپریم کورٹ براہ راست سزا دے اور اِس کے خلاف کوئی اپیل بھی نہ کی جا سکے۔ نوازشریف، جہانگیر ترین اور دیگر سیاست دان ایک بار نہیں متعدد بار عوام سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر چکے ہیں۔ نوازشریف کو تو تین بار پاکستان کے وزیر اعظم بننے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ آج جو لوگ اِس بل کے خلاف آواز اْٹھا رہے ہیں ہو سکتا ہے آنے والے دنوں میں وہ اِسی سے استفادہ کرتے نظر آئیں بالکل ایسے ہی جیسے کہا جاتا ہے کہ نیب قوانین میں ترامیم کا بڑا فائدہ پاکستان تحریک انصاف اور اْس کے رہنماؤں کو ہوا ہے۔ یہ ترامیم نہ ہوئی ہوتیں تو ہو سکتا تھا کہ بہت سے رہنما آج نیب کی تحویل میں ہوتے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here