واشنگٹن ( پاکستان نیوز) اسرائیلی فوج کی جانب سے مسجد اقصیٰ میں جارحیت سے جہاں مسلم اُمہ اضطراب میں مبتلا ہے وہیں دو اتحادی ممالک اسرائیل اور امریکہ میں سرد مہری بھی اپنی جگہ موجود ہے ، اسرائیل نے وائٹ ہائوس کو متنبہ کیا ہے کہ وہ مقبوضہ بیت المقدس کے معاملے میں مداخلت سے باز رہے ، سابق صدر ٹرمپ کے دوستانہ چار سالہ حکومت کے بعد اسرائیل کوامریکہ کی نئی حکومت کی اندرونی معاملات میں مداخلت بالکل ہضم نہیں ہور ہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے حکومتی سطح پر بائیڈن انتظامیہ کو ان معاملات سے دور رہنے کی تاکید کی ہے ، وائٹ ہائوس اندرونی طور پر اسرائیلی معاملات میں مداخلت کے حق میںبھی نہیں ہے لیکن گزشتہ ایک ہفتے سے اسرائیلی افواج کی مسجد اقصیٰ میں جارحیت نے عالمی تنظیموں اور اداروں کو ہوش کے ناخن لینے پر مجبور کر دیا ہے ، امریکہ میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور کانگریس کے اراکین نے وائٹ ہائوس پر دبائو بڑھایا ہے کہ وہ اسرائیل میں ہونے والی جارحیت کی روک تھام میں کردار ادا کرے ۔اسرائیل کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر نے امریکی ہم منصب سے گفتگو میںبتایا کہ اگر امریکہ اور عالمی برادری فلسطین میں امن چاہتی ہے تو فلسطین میں آزادی پسند تنظیموں پر دبائو کو بڑھائے ، یونائیٹڈ نیشن سیکیورٹی کونسل اجلاس کے دوران بھی اسرائیلی جارحیت کے حوالے سے معاملات زیر بحث آئے ہیں ، پاکستان ، ترکی سمیت مسلم ممالک کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کی پرزور الفاظ میںمذمت کی گئی ہے ، ترکی میں انسانی تنظیموں کی جانب سے فلسطینیوں پر مظالم کیخلاف احتجاجی ریلیاں بھی نکالی گئیں ، او آئی سی کے اجلاس میں تمام مسلم ممالک نے اسرائیلی جارحیت کی پرزور الفاظ میں مذمت کی اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ مزید بے گناہ فلسطینیوں کے قتل عام کو رکوانے میں کردار ادا کرے ۔ عالمی تجزیہ کاروں کے مطابق بائیڈن حکومت کی جانب سے تاحال اسرائیل میں سفیر تعینات کرنا بھی دونوں ممالک میں سرد مہری کی بڑی وجہ ہے کیونکہ دونوں ممالک میں ”کمیونیکیشن گیپ” واضح طور پر عیاں ہو رہا ہے ،کرنیج انڈونمنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے سینئر فیلو آرون ڈیوڈ ملر نے کہا کہ اسرائیل اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کی بڑی وجہ امریکہ کی جانب سے اسرائیل میں سفیر کی تعیناتی نہ کرنا ہے ، انھوں نے کہا کہ بائیڈن حکومت کی جانب سے معاملے سے دور رہنا بھی حماس اور اسرائیلی فوج میںکشیدگی کی بڑی وجہ ہے ، مقامی نیوز گروپ کے باراک ریوڈ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر اپنے پیغام میں لکھا کہ بائیڈن انتظامیہ نے سستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ ایران ، لیبیا ، افریقہ اور یمن کے لیے بھی اپنے سفیر تعینات نہیںکیے جس سے مستقبل میں مسائل پیدا ہو سکتے ہیں اسرائیل کے امریکہ میں سفیر جیلاڈ ایردن نے ٹوئیٹر پر اپنے پیغام میں حالیہ اسرائیل ، فلسطینی تنازو پر امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے ناراضگی کا اظہار کیا ۔ واضح رہے کہ اسرائیلی طیاروں کی جانب سے غزہ پر فضائی حملوں اور عسکریت پسند فلسطینی تنظیم حماس کی جانب سے اسرائیلی علاقے پر راکٹ داغنے کے واقعات میں ایک مرتبہ پھر تیزی آ گئی ہے۔پیر سے شروع ہونے والے فریقین کے یہ حملے منگل کے دن اور اب رات کو بھی جاری ہیں اور ان کارروائیوں میں اب تک دس بچوں سمیت 28 فلسطینی جبکہ دو اسرائیلی شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔ اسرائیلی حملوں میں 150 سے زیادہ فلسطینی زخمی بھی ہوئے ہیں۔حماس کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس نے منگل کی شب تل ابیب کی جانب 130 راکٹ پھینکے ہیں جو کہ اسرائیلی جنگی طیاروں کی جانب سے غزہ میں ایک 13 منزلہ رہائشی عمارت کو تباہ کرنے کا جواب ہے۔حماس کی جانب سے پیر کی شب سے اب تک اسرائیلی علاقوں پر 400 سے زیادہ راکٹ پھینکے گئے ہیں جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کے جنگی طیاروں نے غزہ میں 150 اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔اسرائیلی حکام کے مطابق اب تک کی کارروائیوں میں شدت پسند فلسطینی گروپوں کے 16 ارکان کو ہلاک کیا گیا ہے جبکہ حماس کے حملوں میں دو اسرائیلی شہری ہلاک اور چھ زخمی ہوئے ہیں۔ادھر خطے میں اس حالیہ کشیدگی کے بعد عالمی برادری کی جانب سے اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس دونوں سے تحمل کا مظاہرہ کرنے اور پْرامن رہنے کی اپیلیں کی گئی ہیں۔شدت پسند گروہ حماس کا کہنا ہے کہ وہ یہ کارروائیاں بیت المقدس میں مسلمانوں کی مقدس مسجد اقصیٰ پر اسرائیل کی جارحیت اور دہشت گردی کے دفاع میں کر رہا ہے۔عرب میڈیا کے مطابق اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے فضائی حملے کے نتیجے میں حماس کے کمانڈرز کو بھی نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا گیاجبکہ فلسطین کے صدر محمود عباس نے غزہ پر کیے جانے والے حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ عید الفطر کی مناسبت سے منعقد کی جانے والی تقاریب اب نہیں ہوں گی۔فلسطین کے صدر نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ اسرائیلی جرائم کو روکنے کے لیے فوری طور پر اقدامات اٹھائے تاہم دہشت گرد ریاست اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے عالمی سطح پر کی جانے والی اپیلوں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ تنازع آئندہ کئی روز تک جاری رہ سکتا ہے۔نیتن یاہو نے دھمکی دی ہے کہ اسرائیل پوری قوت سے جواب دے گا اور حملہ کرنے والوں کو بھاری قیمت چکانا ہو گی۔