سندھ پمفلٹ کیس اور میری جلاوطنی!!!

0
270
رمضان رانا
رمضان رانا

ویسے تو ہم جیسے سیاسی اور سماجی کارکنوں پر غداری اور بغاوت کے الزامات لگتے رہتے ہیں چاہے وہ ایم آر ڈی عدلیہ کی بحالی یا پھر قاضی عیٰسی کے خلاف انتقامی کارروائی کے خلاف تحریک ہو مگر ماضی میں بھٹو دور میں نیشنل عوامی پارٹی پر پابندیاں عائد اور قیادت پر بغاوت کا حیدرآباد نوازش کیس بنانے کے بعد سیاسی کارکنوں پر بغاوت اور غداری کے مقدمات بتائے گئے ہیں جس سے جیلوں کی رونق بحال رہی ہے۔پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جنرل ضیاء الحق کے دور آمریت اور بربریت میں ہم چند ساتھیوں ڈاکٹر جبار خٹک، ڈاکٹر جمال نقوی، جام ساقی، بشیر بلوچ اور مجھ پر سندھ پملٹ کیس بنایا گیا جن پر الزام لگایا گیاا کہ ہم فوج کے خلاف مسلم جنگ برپا کرکے ملک پر روسی کمیونزم نافذ کرنا چاہتے ہیں یہ وہ وقت تھا جب جنرل ضیاء الحق نے دھمکی دی تھی کے میں پاکستان کو ترقی پسندوں کے لیے انڈونیشیا بنا دونگا جس پر روس کا جواب آیا کہ آج ساٹھ کی دہائی نہیں ہے جس وقت انڈونیشیا کے ظالم حکمران جنرل سہادتو نے تین لاکھ ترقی پسندوں کو گھروں میں مار دیا تھا لہذا آج اسی کا دور ہے جس میں ترقی پسندوں کا قتل عام برداشت نہیں کیا جائیگا۔جس پر میرے علاوہ تمام ساتھی گرفتار ہوچکے تھے لیکن میں نے جلاوطنی اختیار کرتے ہوئے براستہ لندن امریکہ پہنچ گیا جس نے امریکہ میں ہمیشہ کے لیے آبادکاری پر مجبور کردیا۔چونکہ راقم الحروف زمانہ عابد علمی میں طلباء سرگرمیوں اور تحریکوں میں شریک رہا جس کی وجہ سے حکمرانوں کی مخالفت کرنے پر بے تحاشہ مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہے۔نوجوانی میں دور ایوبی میں بس جلانے کیس میں دھر لیا گیا۔جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک میں جل رہا۔بنگال میں فوجی آپریشنن کے خلاف جیل یاتری فلی، چونکہ خاکسار زمانہ طالب علمی میں اسلامیہ کالج کراچی طلبا یونین کا دو مرتبہ صدر منتخب اور انٹر کالجیٹ باڈی کا چیئرمین نامزد ہوا جس کی وجہ سے مختلف ادوار میں طلباء تحریکوں میں سرگرم رہا بعدازاں پی این اے، ایم آر ڈی وکلاء تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں جس کی وجہ سے غداری جیسے الزامات لگتے چلے آرہے ہیں۔حالانکہ آغاز سیاست اور آج تک میری یہی جدوجہد رہی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت قائم ہو آئین کی بالادستی اور قانون کی بالاتری بحال ہو۔فوجی مارشلائوں، قبضوں اور غالبوں کا قائم ہو عوام کی منتخب حکومتیں قائم ہوں اور ملک پر قانون کی حکمرانی قائم ہو۔اگر یہ سب کچھ غداری ہے تو مجھے منظور ہے جس کے لیے مجھ جیسے لاکھوں لوگ جدوجہد جاری رکھیں گے۔جو انسانی فریضہ ہے تاہم پاکستان میں جمہوری قوتوں پر غداری جیسے غلیظ الزامات چلے آرہے ہیں جس کا آغاز انگریزوں کے دور سے آج تک جاری ہے۔عائد ہوتے تاکہ نوازشریف جیسے جنرل ضیاء الحق کے سابقہ حامی پر بھی غداری کے الزامات لگا دیئے گئے کہ وہ بھارت کا ایجنٹ ہے فاطمہ جناح بھی بھاری ایجنٹ تھی۔بھٹو خاندان کو پہلے ہی ختم کردیا۔بچے کھچے خاندان کو سیاسی اور سماجی طور پر تباہ وبرباد کردیا ہے۔حالانکہ پاکستان کے غدار وطن جنرل ایوب خان جنرل یحیٰی خان جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف گزارے ہیں جنہوں نے ملک توڑا آئین پامال کیا سیاستدانوں کا قتل کیا۔پاکستان کو امریکی پرائی جنگ میں جہاد کے مقدس نام پر جھونک دیا امریکی دہشت گردی کی جنگ میں وطن عزیز کو بیج دیا جن پر نہ صرف بغاوتوں اور غداریوں کے مقدمات بنتے ہیں بلکہ جو جنرل زندہ ہیں اور مجرم نہیں ان کو چوکوں پرلٹکا دیا جائے جو مر چکے ہیں ان کی ہڈیاں نکال کر کھمبوں پر لٹکانا چاہئے تاکہ یہ سبق ملے کہ آئندہ کبھی کوئی مبہم جو جنرل آئین پامال نہ کرے۔سول حکومتوں پر قبضے نہ کرے۔سیاست میں مداخلت نہ کرے۔شہریوں کو اغواء نہ کرے قتل وغارت گری سے باز رہے۔ریاست کے اندر ریاست کا وجود نہ لائے۔پاکستان کے آئین اور قانون کے ماتحت کام کرے وغیرہ وغیرہ بہرحال مذکورہ بالا سندھ پملٹ کیس کے ذکر کا مقصد اور مطلب اپنے ماضی کی یادوں کو تازہ کرنا تھا کہ جس میں ملک بچانے والوں کے ساتھ کیا گیا رویہ اختیار کیا گیا جو حقیقی طور پر وطن پرست اور عوام دوست ہیں۔جنہوں نے جنرلوں کی حکمرانی کی مخالفت کرکے ظالموں اور جابروں کا مقابلہ کیا تاکہ پاکستان کو جدید اور قومی ریاست بنایا جائے جس میں ہر شہری کو مساوی حقوق دستیاب ہوں۔جس کا آج ملک بھر میں مطالبہ بن چکا ہے۔وہ لوگ جو کل جنرلوں کے حامی تھے۔وہ آج جنرلوں کی حکمرانی کے خلاف اور سول حکومتوں کے قیام کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ دائیں بازو جو کل جنرلوں کے مارشلائوں کے حامی تھے وہ آج توبہ کرتے نظر آرہے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج پاکستان میں بائیں اور دائیں بازو کی سیاسی قیامت اور کارکن ملک میں جمہوریت کا قیام عوامی حکومت قانونی اور آئینی حکومتوں کے حامی نظر آرہے ہیں جو بہت جلد اپنے مقصد کامیاب ہونگے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here