”یوم آزادی اورتہذیب و ثقافت”

0
296
شبیر گُل

قارئین ! چودہ اگست کو پوری قوم پاکستان اور ملک سے باہر یوم پاکستان انتہائی جوش و خروش سے مناتی ہے۔ پاکستان میں دن کا آغاز اکیس توپوں کی سلامی سے ہوتا ہے۔ ہرتحصیل اور ڈسٹرکٹ میں چھوٹے بڑے پروگرام ترتیب دئیے جاتے ہیں۔ پاکستان اللہ کا عطیہ اور بہت بڑی نعمت ہے۔ جو لاکھوں فرزندان توحید کی قربانیوں کے بعد حاصل ہوا،دو قومی نظریہ اسلام کا احیا اور اسلامی مملکت اسکی بنیاد تھا۔
پاکستان سے تقریبا ایک کڑوڑ لوگ بسلسلہ روزگار خلیج، یورپ، امریکہ، وسط ایشیا اور پوری دنیا میں کام کرتے ہیں جنہوں نے بیرون ملک اپنی پہچان،عزت اور مقام بنایا ہے۔ ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ یورپ اور امریکہ میں سیٹل ہیں۔الحمد للہ پاکستانی کمیونٹی نے بڑی بڑی مساجد،کمیونٹی سینٹرز اور کمیونٹی کو reach out کے لئے آرگنائزیشنز بنائی ہیں جو یوم پاکستان پر بڑی بڑی تقریبات منعقد کرتے ہیں جس میں وطن سے محبت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ پاکستان سے سنگرز اور طائفے کمیونٹی کو entertain کرنے کے لئے بلائے جاتے ہیں ۔ ان میں زیادہ تر سنگر دو تین ترانے اور ملی نغمے گا کر انڈین دھنیں اور ناچ گانے والے نغمے سناتے ھیں۔ اسٹیج پر ڈانس ،مجرا، رنڈیوں پر نوٹوں کی برسات ،گھنگرو کی چھنکار، تھرکتے جسم اور ننگی چھاتیاں ہلا ہلا کر مجرا دکھایا جاتا ہے۔ اس میں ھم سب ملوث ھیں ،ھمیں آگے بڑھ کے ناچ گانے اور مجرا پروگراموں کو روکنا ھوگا۔ جو ھمارا کلچر اور تہذیب نہیں ہے۔پاکستان میں چودہ اگست کو جناح ہال میں وزیراعظم، وزرا اور علما کی موجودگی میں یہ مجرا پوری قوم نے دیکھا۔جو باعث شرم تھا۔ھم اپنی نئی نسل کو قائداعظم کے پاکستان کی ہسٹری سکھانے کی بجائے ،ناچ گانے اور مجرا کو دکھاتے ھیں۔ ذہنی طور پر ھم ہندو تہذیب کے دلدادہ ھیں۔
ھماری ترجیحات بہت مختلف ھیں۔ ھم قیام پاکستان کے مقاصد بیان کرتے ھیں۔ نہ بزرگوں کی قربانیوں کا ذکر کرتے ھیں۔ نہ بانیان پاکستان کے لئے مغفرت اور درجات کی بلندی کی دعا کرتے ھیں ۔صرف ناچ، گانے ڈانس اور مجرا کو یوم پاکستان سمجھ بیٹھے ھیں۔امریکہ اور یورپ کی پاکستانی کمئونٹی بیرون ملک وہی منفی کلچر ساتھ لائی۔جس نے ھمارے معاشرے کو مختلف اکائیوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ مختلف مسلکوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ جس نے ھمیں پاکستانی نہئں ھونے دیا۔ پاکستانی مساجد میں وہی تفرقہ بازی، وہی مسلکی فساد ہر جگہ ملے گا۔ پاکستانی آرگنائزیشنز، پاکستانی میلوں میں وہی جہالت، وہی لڑائیاں، کورٹ کچہری اور دینگا مشتی دیکھنے کو ملے گی۔ علاقائی بنیادوں پر تنظیمیں ، مسلکی بنیادوں پر مساجد ،اونچی آمین کہنے پر وہی نفرت۔ درود شریف کے اصلی اور نقلی ھونے پر لڑائیاں عام ھیں ۔ دوسرے مسالک کی مساجد پر قبضے ۔مساجد اور پریڈ کمئیٹیوں میں اپنی طاقت برقرار رکھنے کے لئے ڈکٹیٹر شپ ۔سیاسی پارٹیوں نے تفریق پیدا کر رکھی ہے۔ یہ فتنہ و فساد اکثر چوک اور چوراہوں میں دیکھا جاتا ہے ۔ ایکدوسرے کے خلاف مقدمات روز کی روٹین ہے۔بیحیثت پاکستانی،غیر تربیت یافتہ ،غیر تہذیب یافتہ اور بغیر کسی کلچر و ثقافت کے دوسروں کے کلچر کا پٹہ گلے میں ڈالے فخر محسوس کرتے ھیں ۔ عید میلاد کے موقع پر روایتی قسم کے پروگرام کرتے ھیں۔ پاکستان کی طرز پر جلوس اور جلسے کر لئے۔ جو جلوس کو بدعت سمجھتے ھیں ان پر تبرا کرلیا۔اہلسنت کو جنت کا ٹکٹ عطا کیا اور جلوس میں نہ آنے والوں پر لعن طعن کی کھانا کھایا۔ چند سو ڈالر جیب میں ڈالے اور بس۔ اسکو سیرت مصطفوی کا نام ، عشق مصطفے اور خضور اقدس سے محبت کا اظہار قرار دیا جاتا ہے۔
لیکن نئی نسل کو رسول اکرم کی سیرت، انکا اخلاق، انکا کردار، دین کو پیش کرتے ھوئے مشکلات پر مبنی سیرت رسول اللہ پر مکالمہ اس سارے منظر نامے سے غائب نظر آتا ہے۔
پاکستان کئی کلچروں کی تہذیب ،کئی مسالک اور مختلف النسل لوگوں پر مشتمل ملک ہے۔ جس میں پٹھان، بلوچ، سندھی پنجابی،سرائیکی ،بلتستانی اور کشمیری اپنی الگ تہذیب اور ثقافت رکھتے ھیں ۔ پاکستان میں بسنے والی مینارٹی ہندو،عیسائی،پارسی ان تہذیبوں سے علیحدہ اپنی الگ پہچان رکھتے ھیں۔غرض کہ ھم مختلف تہذیبوں کا مجموعہ رکھتے ھیں ۔
پاکستان انڈین تہذیب سے آزاد ھوا لیکن اپنی تہذب نہ اپنا سکا۔ھمارے ہر گھر میں انڈین تہذیب سرایت کر گئی ہے۔انڈین فلمیں ھماری روزمرہ کی غذا ھیں۔ ہندو کلچر، ہندو ڈانس، اور مجرا ھماری فلموں، ثقافت اور تہذیب کا حصہ بن چکا ہے۔
پنجاب ، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں چند لوگوں نے کلچر اور ثقافت کو زندہ رکھنے کے لئے بہت کام کیا لیکن انہیں وہ پذیرائی نہ مل سکی جس کے وہ حقدار تھے۔ادب وفن ، آرٹ اور فلمی دنیا میں ہندو تہذیب سے متاثر لوگ بیٹھے ھیں جنہوں نے اپنی تہذیب و ثقافت کو اجاگر نہیں کیا۔غیروں کی تہذیب کو پروموٹ کیا گیا۔اور یہ سودا مارکیٹ میں بکتا ہے۔
بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح نے فرمایا۔ پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریہ پرہے۔
عالم اسلام کی معروف علمی شخصیت ، معتبر عالم دین سید ابوالاعلی مودودی نے قیام پاکستان سے پہلے دو قومی نظریہ اور مسلمانان ہند اور کشمکش میں مملکت خداداد کے خدوحال بیان کئے ھیں۔ سید ابوالاعلی مودودی رح علامہ اقبال رح کے کہنے پر پاکستان مستقل سکونت اختیار کیا ۔ جنہوں نے مسلمان اور ہندو کے متعلق کہا کہ یہ دو الگ الگ قومیں ھیں ۔ قائد اعظم رح کا فرمان ہے کہ پاکستان کلمہ لاالہ اور دو قومی نظریہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا۔ جس کی الگ تہذیب،الگ
پہچان، اپنے کھانے اور اپنا لباس تھا۔
لیکن گزشتہ پہ تر سال میں ھم اپنی تہذیب و ثقافت کو نہ پہچان سکے۔
اپنے کلچرل پروگراموں میں اسٹیج پر پہلے دو گانے پاکستانی اور پھرانڈین تھرکتے جام اور انڈین دھنوں میں پیش کرتے ھیں۔ ھم اپنی اچھی موسیقی اور ادب و شاعری متعارف نہئں کر اسکے۔ حالانکہ مسلم اور اردو شعرا نے دنیا میں اپنا ایک مقام بنایا ہے۔
پاکستان چالیس سال ڈکٹیٹروں کے زیر تسلط رہا۔ جرنیل اور آفیسرز برطانیہ اور امریکہ میں اپنے کورس اور ٹرینگ کرتے ھیں ۔ اپنے دور میں انہوں نے وہی کلچر متعارف کرایا جہاں سے تعلم حاصل کی۔ ڈکٹیٹروں کے ادوار میں لبرل طبقہ کو پروموٹ کیا جاتا ہے۔بیرونی ثقافت متعارف کرائی جاتی ہے۔جس کے نقش کئء کئی سال ھماری تہذیب و ثقافت میں سماتے ھیں۔
ھم اسی گڈ مڈ کلچر و ثقافت سے نکل کر بیرون ملک بسلسلہ روزگار سکونت اختیار کرتے ھیں ۔اور اسی کلچر کو اپنے میلوں اور ایونٹس میں متعارف کراتے ھیں۔
بنگلہ،افریقن ،ترکش ،افغانی اور عربوں کی مساجد میں نماز پڑھیں تو ایک بڑا فرق محسوس کرینگے۔ انکے ہاں نمازیوں میں مسلکی تفریق نظر نہیں آئے گی۔جعلی اور من گھڑت واقعات کی بجائے جمعہ کے اجتماعات میں قرآن و سنت اور اسلام کے بنیادی ارکان پر لیکچر سننے کو ملیں گے۔ علما گفتگو میں شائستگی اور کردار میں چاشنی نظر آئے گی۔
انداز گفتگو دھیما ھوتا ہے۔ اسکے برعکس پاکستانی مساجد میں داخلے سے پہلے اسلام سے زیادہ ،مسلکی جھلک نظر آتی ہے۔
اندر داخل ھوں تو زیادہ تر مساجد میں علما خضرات بہت اونچی آواز میں خطبات بیان فرماتے ہیں۔
بہت غصہ میں بیان چل رہا ھوتا ہے۔ اگر یہی بیان آہستگی اور نرم لہجہ میں کی جائے تو وہ اثر چھوڑتی ہے۔ھمارے بچے اکثر پوچھتے ھیں کہ خضرت اتنے غصہ میں ۔ بلند آواز میں کیوں بیان فرما رہے تھے۔تو ھمارے پاس اس کا کوئی معقول جواب نہیں بن پاتا۔ہم امریکہ اور یورپ میں اسلام کے داعء ھیں۔ پاکستان کے ایمبیسیڈر ھیں۔ کسی میلے یا یوم پاکستان کے ایونٹ میں اپنی ثقافت اور کلچر پیش نہئں کیا جاتا۔ چونکہ ھم ذہنی طور پر اپنی ثقافت، کلچر اور تہذیب سے ناواقف ھیں۔ انڈین کلچر کے پروردہ ھیں۔ اسلئے یوم پاکستان کے ایونٹس اور تقریبات میں نظریاتی تشخص ،تہذیب و تمدن پروموٹ کرنے سے قاصر ھیں ۔ ھم گزشتہ پچہتر برس میں اپنا کلچر اور ثقافت تلاش نہئں کرسکے۔مختلف کلچرز میں کھوئے ھیں گزشتہ پچہتر سال میں اپنی ثقافت اور کلچر ڈویلپ نہیں کرسکے۔ پنجاب اب اے بڑا صوبہ ہے ۔ جس میں سکھوں کی ثقافت اور تہذیب ہے۔ مسلمانوں کا اپنا تشخص،کلچر اور تہذیب کا کوئء اتا پتہ نہئں۔ھمارا ڈانس، بھنگڑہ سکھوں کی طرز تہذیب کا آشکارا ہے۔
بحیثیت مسلم قوم ھمیں اپنی تہذیب و تمدن تلاش کرنا چاہئے۔ جس کے ذریعے ھم اپنا مسلم امیج ، مسلم شناخت کو رواج دے سکیں۔
سندھی ،پختون اور بلوچ تہذیب و کلچر بہت پرانا ہے، جو مکس ھو کر ایرانی اور افغانی کلچر میں مدغم ھو چکا ہے۔
خصوصا سندھی کلچر میں انڈین تہذیب کا رنگ ڈھنگ ھے۔ پوری دنیا میں جہاں پاکستانی کمئونٹی آباد ھے ۔ یوم پاکستان کو جوش وخروش سے مناتے ھیں ۔ مگر وہاں خرافات اوربے حیائی کو کھلی چھوٹ ھوتی ھے۔ جس سے ان قربانیوں کی تضہیک کی جاتی ھے جو حصول پاکستان کے لئے دی گئیں۔ھمیں اس دن اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے جس نے ھمیں آزاد فضاں میں سانس لینے کی توفیق دی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here