قارئین کرام ایک جانب وطن عزیز میں سیاسی ملاکھڑا اپنی انتہاء پر پہنچا ہوا ہے اور نوبت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ ریاست کے دو مضبوط ادارے سینہ تان کر اپنی برتری ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ اس نزاعی کیفیت کی بنیادی وجہ کا ہم نے اپنے گزشتہ کالم کھلی جنگ میں واضح ذکر بھی کیا تھا کہ جھگڑا محض اس بات پر ہے کہ ملک کے سب سے زیادہ مقبول رہنما اور عوامی مینڈیٹ کی جماعت کو مائنس کر کے کٹھ پتلیوں کے ہاتھوں میں زمام اقتدار دے دی گئی ہے اور کار حکومت و مملکت ان کے اختیار و مرضی کے پاس ہے جو 70 دہائیوں سے اس سلسلے کے مالک و مختار ہیں۔ گزشتہ ادوار کے برعکس اس بار ہوا یہ ہے کہ مقتدرہ اور اعلیٰ عدلیہ کے صفحات الگ ہو گئے ہیں، ایک جانب بوجوہ مقدموں، ظلم و بربریت اور ماتحت عدلیہ کے توسط سے سزائوں کی بھرمار ہے تو دوسری طرف ان ہتھکنڈوں کو ختم کرنے کیلئے اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے مظلوموں کے حق میں آرہے ہیں۔ سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی بربریت اس کی تازہ مثال ہے لیکن کیا عمران اور پی ٹی آئی کو اپنے مقاصد کے تحت منطقی انجام تک پہنچانے والے اپنے ارادوں میں ناکامی پر خاموش ہو کر بیٹھ جائینگے، ہمارا تجزیہ اس کے برعکس ہے۔ یہ بات تو اپنی جگہ کہ سائفر کا معاملہ سپریم کورٹ میں اپیل کیلئے جائیگا، اس کے علاوہ بھی مقتدرہ کے پاس متعدد ہتھکنڈے اور 9 مئی سمیت بہت سے کیسز ایسے ہیں جن کے ذریعے عمران خان اور اس کے ساتھیوں کو نشانہ بنانے کے اقدامات نظر آرہے ہیں۔ القادر ٹرسٹ کیس میں ملک ریاض کو انوالو کرنے، اس کے آفس پر دھاوا بولنے اور ملک ریاض کے رد عمل سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کسی بھی صورت اپنے عمران مخالف مقاصد کو تکمیل تک پہنچائے گی۔ بات یہی نہیں کہ معاملات مقدمات تک ہی محیط رکھے جائیں گے، گزشتہ ہفتہ پاکستان آرمی کے فارمیشن کمانڈر اجلاس میں سوشل میڈیا و میڈیا سمیت ملک اور بیرون ملک فوج وریاست مخالف پروپیگنڈہ پر ڈیجیٹل دہشتگردی کے خاتمے کیلئے واضح اعلان کر دیا گیا ہے۔ بادی النظر میں تو یہ ایک مجموعی اعلان ہے لیکن ہماری نظر میں یہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اور حامی میڈیا و اینکرز خصوصاً سن71 و حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کے حوالے سے ٹوئیٹ پر عمران کو گھیرنے کے مقصد کے تحت ہے۔ ہم نے سطور بالا میں القادر کیس میں ملک ریاض کو ملوث کرنے اور ان کے اس کیس میں کارروائی کے عندیہ کا ذکر کیا ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ملک ریاض اشرافیہ کے ان لوگوں میں سے ایک ہے جس کا سکہ اسٹیبلشمنٹ، سیاست دانوں، بیورو کریٹس و دیگر اداروں سمیت میڈیا پر بھی چلتا ہے اس حد تک کہ کوئی چینل، کوئی صحافی، اینکر یا تبصرہ نگار ملک ریاض کیخلاف کچھ کہنے کی ہمت نہیں کر سکتا۔ یہی نہیں وقت اس بات کا بھی گواہ ہے کہ حکومتیں بنانے، بگاڑنے میں بھی اس شخص کا متعدد بار کردار رہا ہے۔ القادر کیس کے حوالے سے ملک ریاض کا ڈٹ جانے کا اعلان اور بہت سے رازوں سے پردہ اُٹھانے کا قصد نہ صرف ایوان اقتدار، سیاست، ریاست، میڈیا و بیوروکریسی بلکہ مقتدرہ کیلئے بھی باعث فکر و تشویش ہوا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ ملک ریاض کے انکشافات بہت لوگوں اور شعبوں و اداروں کیلئے ہزیمت و بدنامی کا سبب ہونگے۔
ملک ریاض نے جو اس وقت دبئی میں ہیں اور اپنا چینل شروع کرنے نیز سوشل میڈیا پلیٹ فارم لانچ کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں راز ہائے دروں سے پردہ اٹھانے کے پہلے اقدام کے طور پر ان صحافیوں، جیدو جغادری اور مقبول و متمول، تجزیہ کاروں، اینکروں کے ناموں کی فہرست جاری کی ہے جو ان کے لئے پے رول پر رہے اور بحریہ ٹائون میں پلاٹوں، گھروں، بڑی رقوم اور ماہانہ مشاہروں کی نوازشات و عنایات سے نوازے جاتے رہے ہیں۔ صحافتی دنیا میں یوں تو عنایات، پے رول اور الاٹمنٹ کا سلسلہ کوئی نئی بات نہیں، ایوبی، بھٹو دور، شریفوں کے ادوار سے آمر حکمرانوں کے زمانوں میں بھی یہ عنایات اپنے مفادات کے تحت دی جاتی رہی ہیں، پے رول پر یا دیگر مفادات پر صحافی ہی نہیں اخباری و چینل مالکان بھی فروخت ہوتے رہے ہیںلیکن ہمیں یہ امید نہیں تھی کہ آج کے دور میں جب میڈیا مالکان کھربوں کی مالیت کے حامل ہیں اور میڈیا ارکان ملینز کی تنخواہوں اور مراعات حاصل کرنے کے باوجود اور عوامی اعتماد کا یقین رکھتے ہوئے قابل فروخت ہو سکتے ہیں۔ فہرست میں موجود لوگوں کے بارے میں یہ تاثر تو ہو سکتا تھا کہ وہ سیاسی الحاق یا نظرئیے کے حامی ہوں لیکن برائے فروخت کا تصور تو ممکن نہ سہی شائبہ بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ کروڑوں روپوں اور ایکڑوں زمین و فارم ہائوسز و گاڑیوں کے عیوض اپنی مقبولیت و قابلیت کو بیچ سکتے ہیں۔ ملک ریاض کی فہرست یوں تو سوشل و الیکٹرونک میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے جس سے مستفید ہونے والوں کی تفصیلات اور مراعات و رقوم کے حصول اور ملک ریاض کے احکام پر چلنے کی تمام تفصیلات ہیں تاہم ہم قارئین کی آگاہی کیلئے وہ نام درج کرنے پر مجبور ہیں جنہیں عوام نے اعتبار، بھروسے اور غیر جانبداری کی سند سے نوازا ہوا ہے اور اس فہرست کے توسط سے وہ فروخت کا مال و پالتو قرار دیئے گئے ہیں۔ مبشر لقمان، ڈاکٹر شاہد مسعود، نجم سیٹھی، کامران خان، حسن نثار، حامد میر، مظہر عباس، مہر بخاری، ماروی سرمد، ارشد شریف (مرحوم)، نصرت جاوید، مشتاق منہاس، جاوید چوہدری، ثناء بُچہ، منیب فاروق، آفتاب اقبال، سہیل وڑائچ، اسماء شیرازی اور سمیع ابراہیم، اب قارئین ہی فیصلہ کریں کہ ہم اس معاشرے کے بارے میں کیا کہیں جہاں ہر جنس محض مفادات و مقاصد کے پلڑے میں تولی اور بیچی جاتی ہے وہاں انسانیت، جمہوریت، آزادی اور عوامی بہتری کو مقدم کون رکھے گا۔ سودے بازی کے متاثرہ سماج میں وہی کچھ ہوتا ہے جو وطن عزیز میں ہو رہا ہے۔ ابھی تو بہت فہرستیں آنی ہیں!
ہر چیز یہاں پہ بکتی ہے
تم بولو کیا خریدو گے
٭٭٭