ایک صدی کا قصہ !!!

0
7
رعنا کوثر
رعنا کوثر

ایک صدی کا قصہ !!!

اس دنیا میں جو اعلیٰ نعمتیں ہیں، ان میں سے ایک نعمت بوڑھی ماں ہے جو اولاد کو بچوں کی طرح پیاری ہو جاتی ہے۔ اس سال20مئی کو میری امی جان نے اپنی عمر کی سو بہاریں دیکھ لیں۔ اللہ نے ان کو اب تک صحت مند زندگی دی۔ اس سال وہ کمزوری کا شکار ہوگئیں۔ سننا اور سمجھنا مشکل ہے مگر اپنے کمزور وجود کے ساتھ ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ان کو دیکھ کر ہی سب کے چہروں پر رونق آجاتی ہے۔ وہ خاموش ہیں مگر پورا گھران کے وجود سے بولتا ہوا نظر آتا ہے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی اپنے تمام بچوں کو نہ صرف محبت دی بلکہ ان کی تربیت یہی بھی بھرپور حصہ لیا۔ سب کی خواہش تھی کے یہ بزرگ جو1924میں پیدا ہوئیں اور ایک صدی اس دنیا میں گزاری ان کی سالگرہ کا اہتمام کیا جائے۔ جب دلوں میں محبت اور جوش وخروش ہو تو کام کرنے میں برکت آہی جاتی ہے۔ ان کے چھوٹے پوتے نے دعوت نامے بنائے۔ جو فوراً ہی سب کو پہنچا دیئے گئے۔ ان کی نواسیوں نے بہت خوبصورتی سے گھر کو سجایا ان کی پر نواسی نے سالگرہ کا کیک بنایا۔ جمعہ کی شام چھ بجے تقریب کا آغاز ہوا۔ تمام صحن ان کے بیٹے بیٹیوں ہوئوں نواسا نواسی پوتا پوتی ان سب کے بچے شوہر اور بیویاں پھر اس کے بعد کی نسل اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ شریک ہوئی۔ یوں چار نسلوں کے ساتھ یہ پروقار تقریب شروع ہوئی جو نہ آسکے وہ اپنی محبت سے مجبور ہو کر زوم پر آنے کے لئے بے چین تھے۔ یوں ان کے محافظ پر نواسے نے تلاوت قرآن پاک کی جس کا ترجمہ یوں تھا کے ماں باپ بوڑھے ہوجائیں تو ہاں سے ہوں بھی نہ کرو۔ اس کے بعد دعا ہوئی۔ پھر امی کی بڑی بیٹی اور بیٹے نے اماں کے بارے میں گفتگو کی انہوں نے بتایا کے میری والدہ نے صرف چوتھی جماعت تک تعلیم حاصل کی تیرہ سال کی عمر میں ان کی شادی ہوئی میرے والد بی اے ایل ایل بی تھے یعنی وکیل کم تعلیم کے باوجود امی کی اردو اور رہن سہن ہم سب کو متاثر کرتا۔ ہم سب کو قرآن شریف بھی انہوں نے ہی پڑھایا۔ گھر میں سارا ہوم ورک وہ اور ابا کرواتے۔ یوں تمام بہن بھائی پڑھ لکھ گئے۔ دو بھائی انجینئر اور ایک ڈاکٹر بنے۔ ہم بہنوں نے بھی تعلیم حاصل کی۔ پھر سب لوگ امریکہ آگئے والد والدہ نے اپنا پہلا سفر انڈیا اور پاکستان کا کیا تھا۔ دوسرا سفر صرف والدہ کا تھا پاکستان سے امریکہ والد صاحب وفات پا چکے تھے۔ ان کے ماشاء اللہ28پوتا پوتی نواسا نواسی ہیں۔ جو کے اپنے والدین کی سرپرستی میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ ڈاکٹر وکیل فارمسٹ اور دوسرے شعبوں میں اپنا لوہا منوا رہے ہیں۔ یہ میری امی کی آدھی صدی کا قصہ ہے۔ پھر ایک نئی نسل پر نواسا نواسی پوتا پوتی کی ہے جن کی کثیر تعداد ہے۔ یہ بھی دنیاوی اور دینی تعلیم سے بہرہ ور ہیں۔ ڈاکٹر پی ایچ ڈی، نیوی آفیسر اور آج کل کے نئے شعبوں میں پہنچ چکے ہیں۔ ان میں محافظ قرآن بھی ہیں جو مسجدوں میں سرگرم عمل ہیں۔ اور دین کا کام دل لگا کر کر رہے ہیں۔ ابھی بہت بچے ہیں۔ جو جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں۔ دیکھتے ہیں یہ ایک شجر کے سایے تلے کتنی نسلیں کیا کرتی ہیں ابھی تو یہ ایک صدی کا قصہ ہے۔
اس دلچسپ تقریب میں ایک کوئز بھی گیم بھی رکھا گیا۔ جس میں اماں کی سو سالہ زندگی پر محیط سوالات تھے۔ یوں یہ تقریب رات گئے ختم ہوئی۔ اس دعا کے ساتھ کہ اللہ ان پر اپنی رحمت کا سایہ رکھے۔ ایک اور اہم بات بتانا چاہوں گی کے تمام والدہ کے تمام اہل بچے40سال پہلے امریکہ آچکے ہیں۔ مگر پاکستان سے محبت قائم ہے۔ ان کے چھوٹے بیٹے نے کراچی میں غریبوں کے لئے مفت کلینک اور مدرسے کا انتظام کیا ہے۔ اسی طرح ان کی بڑی نواسی اور داماد نے بھی پاکستان میں مفت علاج کا ادارہ قائم کیا ہے۔ اور لوگ بھی پاکستان کے لئے بہت کام کر رہے ہیں اللہ اس صدقہ جاریہ کو قبول کرے۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here