ریاکی جنگ ہے بس حاشیہ نشینوں میں !!!
قارئین کرام! ہمارا یہ کالم جس دن آپ تک پہنچے گا ماہ مبارک کا 29 واں روز ہوگا اور روئیت ہلال کے مطابق جمعہ کو یا پھر ہفتہ کو عید الفطر ہوگی۔ پاکستان نیوز شکاگو اور بالذات ہماری جانب سے تمام قارئین کو دلی مبارکباد اور دعائیں کہ اللہ رب العزت ماہ مقدس کی عبادتوں، ریاضتوں کو قبول فرمائے اور اُمت مسلمہ ومسلم دنیا کوسکون، سلامتی اور امن و خوشحالی سے نوازے، آمین۔ ہماری دعائیں بالخصوص پاکستان کیلئے قلب کی گہرائیوں سے ہوتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ دعائیں محض نیت کی بنیاد پر قبول نہیں ہوا کرتی ہیں، اس کیلئے ارادہ و عمل لازم ہے۔ ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں اسی حوالے سے معروضات پیش کی تھیں کہ وطن عزیز میں جو کھیل جاری و ساری ہے وہ بدنیتی پر مبنی ارادوں اور عمل کے باعث آئین، جمہوریت، عوام دشمنی کی عکاسی ہے بلکہ 23 کروڑ پاکستانیوں کی زندگی کیلئے بھی ناسور ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ حکومتی ٹولہ اپنی شکست کے خوف سے کسی بھی طور انتخابات کرانے کیلئے تیار نہیں اور کسی نہ کسی حیلے بہانے، ہتھکنڈے اور آئین سے انحراف و پارلیمان کی برتری کی موشگافیوں اور ملک کی سب سے بڑی عدالت کے احکامات کو مسترد کر کے پنجاب میں انتخاب کرانے سے انکاری ہے۔ ملک میں دو بڑے اداروں اور ریاست کے اہم ترین ستونوں کے درمیان تنازعہ کی اس کیفیت سے گزشتہ ایک برس سے جاری انتشار و خلفشار اب اس نہج پر پہنچ چکا ہے جہاں امید اور بہتری کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔ سپریم کورٹ کے پنجاب میں انتخاب کیلئے گورنر اسٹیٹ بینک کو 21 ارب کی الیکشن کمیشن کو فراہمی اور رپورٹ 17 اپریل تک دینے کے واضح حکم کو نا اہل حکومت نے قائمہ کمیٹی، کابینہ اور پارلیمنٹ کے چکر چلا کر مسترد کرنے کا اقدام کر دیا ہے اور اپنی کسی بھی صورت الیکشن نہ کرانے کی بدنیتی پر قائم ہے۔ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ انتخابات نہ کرانے کے زعم میں عدالت عظمیٰ کی حکم عدولی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ یہی نہیں اعتزاز احسن جیسے ماہر قانون و آئین اور دیگر ماہرین کے مطابق شہباز شریف اور اعظم نذیر بھی توہین عدالت کے شکنجے میں آکر نا اہلی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ نا اہل حکمران اس حد تک آچکے ہیں کہ انہیں اپنی نااہلی کا مرحلہ قبول ہے مگر پنجاب میں انتخاب کرانا منظور نہیں۔ یہ بات تو اپنی جگہ مصدقہ ہے کہ عمران کی کامیابی اور اپنی نا مقبولیت اس کی بنیادی وجہ ہے لیکن اس کیساتھ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ صدر مملکت عارف علوی اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال بالترتیب 9 اور 17 ستمبر کو اپنی مدت عہدہ پوری کر لینگے۔ ان عمران مخالف اور مفادات کے غلاموں کو یہ گمان ہے کہ متذکرہ صورتحال کے بعد عمران کمزور پڑ جائیگا اور یہ اسے سیاسی منظر نامے سے باہر کر سکیں گے لیکن عمران کی دن بدن بڑھتی ہوئی عوامی حمایت و مقبولیت کو یہ اپنی غیر جمہوری اور مکارانہ حرکتوں سے زیر نہ کر سکیں گے۔ اس وقت تو صورتحال یہ ہے کہ ملک کے اندر تجزیہ کار، قانونی وآئینی ماہرین، میڈیا اور سول اشرافیہ ہی نہیں، بین الاقوامی سطح پر بھی منتخب و سیاسی راہنمائوں، میڈیا و انسانی حقوق کے اداروں کی جانب سے حکومتی غیر جمہوری رویوں و اقدامات کیخلاف اور عمران کی حمایت میں آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔
وطن عزیز جس بحران اور سیاسی، معاشی و سیکیورٹی کی بدترین صورتحال کے گرداب میں ڈُوب رہا ہے، اس کے تدارک کیلئے گزشتہ ہفتے جہاں ایک جانب پارلیمنٹ کا ان کیمرہ اجلاس ہوا جس میں آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی و دیگر عسکری عہدیدار شریک ہوئے وہیں دوسری جانب جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے حالیہ بدترین سیاسی نفرت کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کیلئے مذاکرات کا ڈول ڈالنے کیلئے شہباز شریف اور عمران خان سے ملاقاتیں کیں، انتخابات کے ایشو اور سیاسی بحران کم کرنے کیلئے باہم مذاکرات کی دعوت دی۔ دوسری جانب آرمی چیف نے ان کیمرہ اجلاس میں نیا پاکستان پرانا پاکستان کے بدلے ہمارا پاکستان کے مؤقف کو اپنانے کی مثبت تجویز دیتے ہوئے پارلیمنٹ کو ریاست کی ماں قرار دیا اور عوام کے نمائندوں کو منزل کے حصول کا ذریعہ قرار دیا۔
بادی النظر میں متذکرہ بالا دونوں تجاویز و مؤقف موجودہ سیاسی و ملکی بحران و انتشار کو ختم کرنے کی راہ ہے لیکن پنجاب میں انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے حکم کو پارلیمان کے ذریعہ مسترد کرنے اور مذاکرات پر رضا مندی کے ساتھ ہی علی زیدی کی 10 سالہ مفروضی ایف آئی آر پر گرفتاری نیز فضل الرحمن کے عمران خلاف زہریلی گفتگو، حکومتی بدنیتی اور مکاری کی نشاندہی نہیں ہے؟ خبر تو یہ بھی ہے کہ عید پر عمران خان کو اٹھانے یا خدانخواستہ راہ سے ہٹائے جانے کی منصوبہ بندی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بدنیت حکومت کی اس بدنیتی کا اسٹیبلشمنٹ ایجنسیوں کو علم نہیں۔ حکومت کا یہ کردار عوامی نمائندوں کو منزل کے حصول کی نشاندہی تو ہر گز نہیں۔ جہاں تک پارلیمان کی بالادستی کی بات ہے تو کیا موجودہ پارلیمنٹ ایک مکمل پارلیمان کہی جا سکتی ہے، جہاں ملک کی سب سے بڑی اور مقبول ترین جماعت کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ عمران خان نے مذاکرات میں شرکت پر آمادگی کیلئے تین نکات پیش کر دیئے ہیں، پی ٹی آئی اراکین کے استعفوں کی واپسی، قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کا قائد حزب اختلاف اور گرفتار کارکنان و رہنمائوں کی رہائی، کیا اس ملک کے مقتدرین اس نکتہ پر وطن و عوام کی بہتری اور امن و سکون پر توجہ دینگے۔ذاہری طور پر ایسا نظر نہیں آتا کے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق مطلق محکمے ادارے و ڈیفنس14مئی کے انعقاد پر عمل کریں گے؟ ان کی جانب سے دی ہوئی رپورٹس اس حقیقت کی شہادت ہے۔ اُدھر مذاکرات کے حوالے سے حکومتی اتحاد بھی تقسیم نظر ا رہا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ اس وقت ملک کے تمام تر ادارے تقسیم کی ایسی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں جہاں سے باہر نکلنا مشکل ہی نہیں تقریباً ناممکن ہے۔ اداروں میں تقسیم در تقسیم کا یہ سلسلہ خود ان کے اندر بھی دراڑیں ڈال رہا ہے اور نہ صرف ریاست و مملکت بلکہ عوام کیلئے درماندگی اور شکست و ریخت کا سبب بن سکتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ عوام اپنے حق کیلئے اُٹھ کھڑے ہوں اور سب کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائیں۔
رہے حالات گر یونہی ہمارے
نہ ہوگی اپنی کوئی داستاں تک
٭٭٭