آج نیب کی عدالت نے جنگ اخبار کے چیف ایڈیٹر میرشکیل الرحمان کو اراضی کی الاٹمنٹ کے1986کے مقدمہ سے ثبوت کی عدم موجودگی کی بنا پر مقدمہ ختم کرکے باعزت بری کردیا گیا۔انہیں مارچ2020میں گرفتار کرکے انکے والد کو میاں نوازشریف کی طرف سے1986ء میں جنگ اخبار کی عمارت کیلئے الاٹ کی گئی زمین کے بے بنیاد الزام پر تحریک انصاف کی حکومت نے گرفتار کروایا تھا۔یہ اس زمانے کی بات ہے جب تحریک انصاف یا عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ ایک صفحہ پر تھے لیکن اس فیصلے نے ظاہر کردیا کہ اب یہ دونوں دھڑے ایک صفحہ پر نہیں رہے۔پاکستان کی عدالتی اور قانونی تاریخ میں ایسا لغو مقدمہ کبھی سامنے نہیں آیا کہ والد محترمہ میر خلیل الرحمان کو نواز شریف جو اس وقت وزیراعظم کے عہدے پر براجمان تھے انہوں نے بلا کر جنگ اخبار کی خدمات کے بدلے انہیں رعایتی قیمت پر زمین دینے کی آفر دی جسے بڑے میر صاحب نے بخوشی قبول کرتے ہوئے رقم کی پہلی قسط جمع کرا دی بدقسمتی سے عمران خان صاحب کو34سال بعد خیال آیا کہ یہ زمین میاں نوازشریف نے سستے داموں جنگ کے بانی میر خلیل الرحمان صاحب اس فانی دنیا سے کوچ کر چکے ہیں تو انکے صاحبزادے اور اس جائیداد کے بڑے وارث میر شکیل الرحمان کو اس جرم کی پاواش میں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا اس مضحکہ خیز الزام میں میر شکیل کو آٹھ ماہ تک جیل میں بند رکھا گیا تضحیک آمیز رویہ روا رکھ کر پاکستان کہ سب سے بڑے نیوز گروپ جو پاکستان کے عارض وجود میں آنے والے دن سے نکلنے والے اخبار کے روح رواں کو بیڑیاں لگا کر عدالت سے جیل اور جیل سے عدالت تک کا سرکس لگایا گیا۔دنیا بھر میں اظہار رائے کی آزادی کے متوالوں میں پاکستان کی ساتھ کو اچھالا گیا۔دنیا بھر نے اس حرکت پر تھو تھو کیا اور پھر آٹھ ماہ کی قید اور دو سال کورٹ کچہری کرنے کے بعد انہیں باعزت بری تو کردیا لیکن جو میر شکیل کو ذہنی اذیت پہنچی۔اس کا ازالہ کون کریگا اور افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ اس حرکت تو کسی آمرانہ حکومت نے بھی نہیں کی جو اس نام نہاد سیاسی حکومت کے ہاتھوں کروا کر جمہوریت کی پیشانی پر ایک دھبہ لگا کر دنیا کو یہ پیغام دیا گیا کہ آمریت کو بدنام نہیں کرو یہاں کی سیاسی اور جمہوری حکومتوں کا حال بھی بد سے بدتر ہے۔اظہار رائے کی آزادی کیلئے کسی حکومت میں برداشت نہیں ہے۔ادھر عمران خان کو بھی احساس ہوگیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے نہ صرف استعمال خوب کیا اور اتنا بدنام کر دیا ہے کہ نہ صرف انہیں پاکستان کی عوام جینے نہیں دیگی۔(عزت کے ساتھ)بلکہ ملک سے باہر بھی انکی زندگی دو بھر ہوجائیگی۔تنگ آید بہ جنگ آید کی مصداق اب انہوں نے وزیراعظم ہائوس میں بیٹھ کر طاقت کے اصل مراکز کو آنکھیں دکھانا شروع کردیں ہیں اب کہنے سنے گئے ہیں کہ”میں سڑکوں پر نکل آیا تو اور خطرناک ہونگا یہاں بیٹھا ہوں تو آرام سے بیٹھا ہوں۔زیادہ شور نہیں کرتا”یعنی مجھے وزیراعظم ہائوس سے مت نکالو۔اقتدار چیز ہی ایسی ہی سب یہی کہتے ہیں کہ مجھے مت نکالو!جب نکال دیئے جاتے ہیں تو پوچھتے ہیں مجھے کیوں نکالا؟؟ پھر انکا ضمیر جاگ جاتا ہے۔پھر وہ”اصل باتیں بیان کرنا شروع کردیتے ہیں۔”
یعنی اسٹیبلشمنٹ کے کچے چٹھے کھولنا شروع کردیتے لیکن مد افسوس کے اس وقت انکی حیثیت ان لاکھوں مجذوبوں کی طرح ہوجاتی ہے۔جو سڑکوں پر اپنے اور پرایوں کے دکھ جھیل کر ذہنی توازن کھو چکے ہوتے ہیں۔حکمرانوں کو اقتدار کی کرسی سے الگ کر دو تو اس دکھ کو برداشت نہیں کر پاتے۔آج جو صاحب اقتدار ہے اسے پتہ لگ گیا ہے کہ کرسی انکے نیچے سے پھسلنا شروع ہوچکی ہے۔اب وہ سڑکوں پر خطرناک بھی بن کر دیکھیں انہیں دوبارہ اقتدار نہیں ملنا اقتدار کی طاقت اللہ کی امانت ہے۔اگر آپ اسے خلق خدا کی بہتری کے لئے نہیں استعمال کرتے تو یہ آپ سے چھن جاتی ہے کیونکہ کسی انسان کا اقتدار دائمی نہیں دائمی اقتدار صرف اس رب جلیل کا ہے باقی ہر شے فنا ہے۔
٭٭٭