تحریر:ہما یوسف
امریکی یونیورسٹی میں داخل ہوکر پولیس نے جس طرح فلسطین کے حق میں مظاہرے کرنے والے طلبہ کو گرفتار کیا، وہ مناظر دنیا نے دیکھے۔ یہ جامعات میں مہینوں سے جاری کریک ڈان کے بعد سخت نگرانی اور سینسر شپ میں اضافہ تھا۔ اس کریک ڈان میں مشاعروں پر پابندی، طلبہ اور فیکلٹی کے خلاف سوشل میڈیا مہمات، یونیورسٹی صدور کی برطرفی اور فلسطین کی حمایت کرنے والے طلبہ گروہوں کی معطلی شامل ہے۔ بڑی تعداد میں طلبہ کی گرفتاری اور کیمپس میں قائم کیمپوں کو پولیس کی جانب سے ہٹائے جانے نے امریکی جامعات میں آزادی اظہار کی ایک اور تحریک کو جنم دیا ہے بالکل ویسے ہی جیسے 1950 کی دہائی میں کمیونسٹ اور سوویت یونین کے حامیوں کے خلاف امریکی جامعات میں ہونے والی سختیوں اور پابندیوں کے خلاف تحریک نے سر اٹھایا تھا۔ طلبہ کو احتجاج کا حق حاصل ہے، اس پر دنیا بھر سے ان کی حمایت میں آوازیں اٹھ رہی ہیں اور یاد کیا جارہا ہے کہ ماضی میں کس طرح طلبہ تحریکوں نے ویتنام جنگ سے لے کر جنوبی افریقی نسل پرستی کے خاتمے میں اپنا مثبت اور سرگرم کردار ادا کیا۔ لیکن جب بات تحریکوں کی آتی ہے تو کچھ بھی اتنا آسان نہیں ہوتا جیسا ہمیں نظر آتا ہے۔ آزادی اظہار اور جمہوریت کے حامیوں کو موجودہ صورت حال پر فکرمند ہونا چاہیے۔ ایسا نہیں ہے کہ طلبہ کی یہ تحریک بڑے پیمانے پر چل رہی ہے کیونکہ امریکی جامعات میں گرمیوں کا وقفہ قریب ہے تو مشکل ہی ہے کہ طلبہ جس جوش سے فلسطین کے حق میں مظاہرے کررہے ہیں، اس کا سلسلہ یونہی جاری رہے۔ کریک ڈان سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ کس طرح پرامن مظاہروں کو بھی خلل، نفرت انگیز اور تشدد کا خطرہ قرار دیا جاسکتا ہے (حال ہی میں مظاہروں کے مخالف کولمبیا یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے بار بار ڈھول بجانے کو تشدد کی ایک قسم قرار دیا)۔ جہاں ایک جانب اس طرح کی مثالیں قائم کی جارہی ہیں وہیں دوسری جانب امکان ہے کہ پابندیوں کا یہ سلسلہ جاری رہے گا اور یہ صرف امریکی یونیورسٹیز تک محدود نہیں رہے گا۔ دنیا بھر کے آمریت پسند امریکا سے سبق لے رہے ہیں کہ اپنے خلاف اٹھنے والی تنقیدی آوازوں کو مثر انداز میں کس طرح دبایا جائے۔ چھوٹے پیمانے پر آغاز کریں، سب سے پہلے ایک بیانیہ بنائیے، اس پر اپنی گرفت مضبوط کریں، مخالفین کے الفاظ کو توڑ مروڑ کر ان کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کریں اور پھر ان کے پیچھے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو لگا دیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا کی ایلیٹ یونیورسٹیز میں طلبہ کے چیلنجز، غزہ کے المیے سے بھی بالاتر ہیں۔ طلبہ کی گرفتاری کی تصاویر جنریشن زی کو رومانوی انداز میں متاثر کررہی ہیں جو ایک اشارہ ہے کہ ایک ایسی نسل جسے معلومات سے عاری اور غیرسیاسی سمجھا جاتا ہے، درحقیقت وہ بھی اب انصاف کے لیے لڑنے کو تیار ہے۔ اپنی طاقت سے مطمئن ہونے کے بجائے دنیا بھر کے سرگرم کارکنان کو چاہیے کہ وہ اس بات پر اپنی توجہ مرکوز کریں کہ ان کے کس عمل سے تبدیلی آرہی ہے اور کس سے نہیں۔ ان مظاہروں کی کامیابی کے پیچھے ایک کلیدی وجہ ان کا مقامی صورتحال سے مطابقت رکھنا ہے۔ اسرائیل سے جنگ بندی یا دو ریاستی حل پر مہم چلانے کے بجائے ہر یونیورسٹی کے طلبہ مخصوص مطالبات کررہے ہیں جیسے اس کمپنیز سے لاتعلقی اختیار کی جائے جو اسرائیلی افواج کو اسلحہ فراہم کررہی ہیں اور وہ لوگ جو اس جنگ سے منافع کما رہے ہیں۔ انہوں نے بڑھتی ہوئی شفافیت کے اعتبار سے اپنے مطالبات بھی ترتیب دیے ہیں۔ مظاہرین کو اپنے پہلی ترمیمی حقوق اور احتجاج کے متعدد طریقوں کی قانونی حیثیت (اگر نہیں ہیں تو) کے حوالے سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ یہ پورے ملک میں منظم ہیں اور انہیں قانونی حقوق کے گروہوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ ایک جانب جہا ں پاکستان کی تاریخ میں بھی ایسے مثر طلبہ تحریکیں گزر چکی ہیں جن میں ایوب خان کی آمریت کے خلاف سے لے کر طلبہ یونین اور طلبہ ہراسانی کے خاتمے کے لیے حالیہ اسٹوڈنٹ سولیڈیریٹی موومنٹ شامل ہیں۔ طلبہ یونینز کی حمایت کرنے والے حالیہ بل اور قائداعظم یونیورسٹی کی جانب سے طلبہ یونینز جیسے گروہوں کو فعال رہنے کی اجازت دینے کے فیصلے کا مطلب ہے کہ پاکستان میں بھی طلبہ کی سرگرمیاں دوبارہ سر اٹھا رہی ہیں۔ جامعات میں احتجاجی تحریکوں کو پروان چڑھنے کا موقع دینا چاہیے لیکن ایسی تحریکوں میں انصاف، علم اور مثبت تبدیلی کا جذبہ ضرور شامل ہونا چاہیے۔