حج کا مقصد رضائے الہٰی کا حصول ہے،حج کے جتنے بھی مناسک ہیں اْسکا تعلق ماضی سے ہے۔ ہماری حاضری سے لیکر کعبہ اللہ کے چکر ،احرام باندھنے، طوائف زیارت ، ہمارے اسلاف کی یادگاریںہیں، کعبہ اللہ کے چکر۔حجر اسود کی تکمیل ، پھر اسکو چومنا، اگر ہر چکر میں چوم سکتے ہو تو اسکو چومو حالانکہ پتھروں سے دور ہٹایا جارہاہے۔ حضرت عمر نے فرمایا اے حجر اسود میں تمہیں کبھی نہ چومتا اگر اسے میرے نبی ۖنے نہ چوما ہوتاپھر آب زم زم کا احترام۔ اسے کھڑے ہو کر پینے کا حکم ہے، حالانکہ پانی کو بیٹھ کر پینے کا حکم ہے۔ میدان عرفات میں آخری نبیۖ، نبی رحمت امام الانبیاء جناب محمد رسول اللہۖ نے 9 ذی الج ، 10 ہجری (7 مارچ 632 عیسوی) کو آخری خطبہ حج دیا تھا۔ آئیے اس خطبے کے اہم نکات کو دہرا لیں کیونکہ ہمارے نبی ۖ نے کہا تھا، میری ان باتوں کو دوسروں تک پہنچائیں۔ حضرت محمد رسول اللہ ۖ نے فرمایا اے لوگو! سنو، مجھے نہیں لگتا کہ اگلے سال میں تمہارے درمیان موجود ہوں گا۔ میری باتوں کو بہت غور سے سنو اور ان کو ان لوگوں تک پہنچاؤ جو یہاں نہیں پہنچ سکے۔٢۔ اے لوگو! جس طرح یہ آج کا دن، یہ مہینہ اور یہ جگہ عزت و حرمت والے ہیں۔ بالکل اسی طرح دوسرے مسلمانوں کی زندگی، عزت اور مال حرمت والے ہیں۔ (تم اس کو چھیڑ نہیں سکتے )۔ *٣*۔ لوگو کے مال اور امانتیں ان کو واپس کرو،*٤*۔ کسی کو تنگ نہ کرو، کسی کا نقصان نہ کرو۔ تا کہ تم بھی محفوظ رہو۔ *٥*۔ یاد رکھو، تم نے اللہ سے ملنا ہے، اور اللہ تم سے تمہارے اعمال کی بابت سوال کرے گا۔ *٦*۔ اللہ نے سود کو ختم کر دیا، اس لیے آج سے سارا سود ختم کر دو (معاف کر دو)۔ *٧*۔ تم عورتوں پر حق رکھتے ہو، اور وہ تم پر حق رکھتی ہیں۔ جب وہ اپنے حقوق پورے کر رہی ہیں تم ان کی ساری ذمہ داریاں پوری کرو۔ *٨*۔ عورتوں کے بارے میں نرمی کا رویہ قائم رکھوکیونکہ وہ تمہاری شراکت دار (پارٹنر) اور بے لوث خدمت گزار رہتی ہیں۔ *٩*۔ کبھی زنا کے قریب بھی مت جانا۔ *١٠*۔ اے لوگو! میری بات غور سے سنو، صرف اللہ کی عبادت کرو، پانچ فرض نمازیں پوری رکھو، رمضان کے روزے رکھو، اورزکوة ادا کرتے رہو اگر استطاعت ہو تو حج کرو۔ *١١*۔زبان کی بنیاد پر رنگ نسل کی بنیاد پر تعصب میں مت پڑ جانا، کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر، عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں، ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ تم سب اللہ کی نظر میں برابر ہو، برتری صرف تقوی کی وجہ سے ہے۔ *١٢*۔ یاد رکھو! تم ایک دن اللہ کے سامنے اپنے اعمال کی جوابدہی کے لیے حاضر ہونا ہے،خبردار رہو! میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا۔ *١٣*۔ یاد رکھنا! میرے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا ، نہ کوئی نیا دین لایا جاےَ گا۔ میری باتیں اچھی طرح سے سمجھ لو۔ *١٤*۔ میں تمہارے لیے دو چیزیں چھوڑ کے جا رہا ہوں، قرآن اور میری سنت، اگر تم نے ان کی پیروی کی تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔ *١٥*۔ سنو! تم لوگ جو موجود ہو، اس بات کو اگلے لوگوں تک پہنچانا اور وہ پھر اگلے لوگوں کو پہنچائیںاور یہ ممکن ہے کو بعد والے میری بات کو پہلے والوں سے زیادہ بہتر سمجھ (اور عمل) کر سکیں۔ ١٦*پھر آپ نے آسمان کی طرف چہرہ اٹھایا اور کہا*، *١٧*۔ اے اللہ! گواہ رہنا، میں نے تیرا پیغام تیرے لوگوں تک پہنچا دیا۔ *نوٹ*: اللہ ہمیں ان لوگوں میں شامل کرے، جو اس پیغام کو سنیں/پڑھیں اور اس پر عمل کرنے والے بنیں اور اس کو آگے پھیلانے والے بنیں۔ اللہ ہم سب کو اس دنیا میں نبی رحمت کی محبت اور سنت عطا کرے اور آخرت میں جنت الفردوس میں اپنے نبی کے ساتھااکٹھا کرے، آمین۔
*عرفہ کا روزہ کب اور کیسے رکھیں؟* حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرمۖ نے ارشاد فرمایا *عرفہ کے دن کے روزے کے متعلق میں اللہ تعالیٰ سے پختہ اُمید رکھتا ہوں کہ وہ اس کی وجہ سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کو معاف فرمادیں گے*۔ (صحیح مسلم) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ عرفہ کے دن کا ایک روزہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کی معافی کا سبب بنتا ہے۔ لہذا ہمیں 9 ذی الحجہ کے دن روزہ رکھنے کا اہتمام کرنا چاہئے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہندوپاک کے لوگ اپنے علاقہ کے اعتبار سے ذو الحجہ کی نویں تاریخ کو روزہ رکھیں یا سعودی عرب کے مطابق جس دن حج ہوگا اْس دن روزہ رکھیں۔ سعودی عرب اور ہندوپاک کی چاند کی تاریخ میں عموماً ایک دن کا فرق ہوتا ہے۔ پہلی بات تو عرض ہے کہ احادیث مبارکہ میں پہلی ذو الحجہ سے نویں ذوالحجہ تک روزے رکھنے کی خاص فضیلت وارد ہوئی ہے اس لئے اگر دونوں دن روزہ رکھ لیا جائے تو سب سے بہتر ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص صرف ایک ہی روزہ رکھنا چاہتا ہے تو اس کے متعلق فقہاء وعلماء کے درمیان اختلاف ہے کہ کونسے دن رکھا جائے۔ اختلاف ہونے کی وجہ سے دونوں اقوال میں سے کسی ایک قول کو اختیار کرنے کی گنجائش ہے کیونکہ یوم عرفہ کا روزہ رکھنا فرض یا واجب نہیں ہے بلکہ مسنون ہے۔ ہمارے علماء نے کہا ہے کہ ہندوپاک کے لوگ اپنے علاقہ کے اعتبار سے نویں تاریخ کو روزہ رکھیں کیونکہ یوم عید الفطر، یوم عیدالاضحی اور یوم عاشورہ کی عبادتوں کی طرح یوم عرفہ کاروزہ بھی اپنے علاقہ کی چاند کی نویں تاریخ کو رکھا جائے، لیکن اس مسئلہ میں جھگڑنے کے بجائے وسعت سے کام لیں اور اپنی رائے کو دوسرے پر تھوپنے کی کوشش نہ کریں۔ ہاں ایک بات عرض کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے بعد سے مکہ مکرمہ پر کفار مکہ کا قبضہ ہونے کی وجہ سے مسلمان حج ادا ہی نہیں کرسکے تہے۔ نویں ہجری میں مسلمانوں نے پہلا حج کیا اور اْس کے اگلے سال یعنی 10 ویں ہجری کو حضور اکرمۖ نے حج کیا جو حجة الوداع کے نام سے مشہور ہے، جس کے صرف تین ماہ بعد آپ ۖ اس دنیا سے رخصت فرماگئے۔ ہمارے پاس کوئی ایسی دلیل نہیں ہے کہ جس میں یہ وضاحت ہو کہ یوم عرفہ میں روزہ رکھنے کی فضیلت 9 ہجری یا اْس کے بعد آئی ہے۔ نیز یوم عرفہ اور وقوف عرفہ دونوں الگ الگ ہیں۔ وقوف عرفہ کا مطلب احرام کی حالت میں عرفات کے میدان میں وقوف کرنا، یعنی وقوف عرفہ صرف حاجی کرسکتا ہے اور عرفات کے میدان میں ہی۔ خلاصہ کلام یہ ہے دونوں دن روزہ رکھیں اور اگر ایک ہی دن رکھنا چاہتے ہیں تو جو آپ کے علماء کہیں اْس کے مطابق عمل کرلیں۔
*امسال (1442) سعودی عرب میں 9 ویں ذی الحجہ پیر کو اور برصغیر میں منگل کو ہے۔ خلیجی ممالک کے لوگ اگر یوم عرفہ کا روزہ رکھنا چاہئیں تو امسال پیر (19 جولائی 2021) کو رکھیں۔ ہندوپاک کے لوگ اگر پیر اور منگل دونوں دن روزہ رکھ لیں۔ جب اللہ رب العزت نے ابراہیم علیہ سلام کو اسماعیلی کی قربانی کا فرمایا۔ تو حکم حداوندی پر الھم لییک کہا۔ اللہ نے ان تکبیرات کو قیامت تک کے لئے پسند فرما لیا۔ صفہ مروہ ، خضرت حاجرہ کے بھاگنے کو اللہ نے آنے والی نسلوں کے لئے یادگار بنادیا۔نبئیوں، صحابہ،سلف صالحین، بادشاہوں سب کے لئے حج کا رکن بنا دیا۔ یہ وہ ماضی کی یادگاریںہیں جو اللہ نے پسند فرمائیں اور حاجی حضرات کے لئے لازم قرار پائیں۔ آج سعودیہ عریبہ میں یہود کے پرستاروں کی حکومت ہے۔
حج کے لئے پابندیاں ، لیکن ڈیڑھ لاکھ لوگوں کا میوزک کنسرٹ کروا دیا گیا۔وہاں کرونا نے تباہی نہیں مچائی۔ گزشتہ دنوں سعودیہ عریبہ میں ایک بہت بڑے شراب خانے کا افتتاح سعودی اور دبئی کے شیخ نے کیاجہاں پر سینکڑوں نہیں ہزاروں لوگوں کا جم غفیر تھا، وہاں کرونا نے حملہ نہیں کیا۔کیا کرونا صرف فرض عبادات پر ھی حملہ کرتاہے جہاں ایس او پیز کا مکمل خیال رکھا جاتا ہے۔ صرف حاجیوں پر پابندیاں ،آخر کیوں ؟ ایسے درندے حکمرانوں کو جانوروں کی جگہ ذبیح کر دینا چاہئے۔ جو حج جیسی مقدس عبادت کاتمسخر اْڑاتے ہیں۔ ۔ رمضان المبارک میں لیلتہ القدر کو اللہ رب العزت نے مخفی رکھا ہے۔ فرمایاہے کہ شب القادر کو آخری طاق راتوں میں تلاش کرو۔لیکن عرفہ کا دن اللہ تعالی نے ظاہر رکھا ہے۔ ”
حدیث شریف میں آتاہے کہ اللہ تعالی ہر رات کے تیسرے پہر دنیائے آسمان پر نزول فرماتے ہیں سوائے عرفہ کے، یوم عرفہ پر اللہ تعالی دن کو جلوہ افروز ہوتاہے۔یہ دن دعاؤں کا التجاؤں اور اللہ سے مانگنے کا دن ہے۔ سلف صالحین اپنی ضرورتوں کو عرفہ کے دن کی دعاء کے لئے جمع رکھتے تھے۔ ساری ضروریات، تمنائیں اور دعائیں اس دن قبول ہوتی ہیں۔۔ رسول اللہۖ نے فرمایا:
کوئی دن نہیں جس میں اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن سے بڑھ کر بندوں کو آگ سے آزاد فرماتا ہو ، وہ ( اپنے بندوں کے ) قریب ہوتا ہے۔ اور فرشتوں کے سامنے ان لوگوں کی بناء پر فخر کرتا ہے اور پوچھتا ہے : یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟۔ (صحیح مسلم، باب:عرفہ کے دن کی فضیلت،٨٨٢٣) رمضان المبارک میں شب قدر (لیلة القدر) ہم سے غائب رہتی ہے اور ہمیں پتہ نہیں ہوتا کہ کونسی رات ہوگی؟ جبکہ ذوالحجہ میں پروردگار عالم ہمیں خود بتاتے ہیں کہ یہ دن عرفہ کاہے، کیا اس کے باوجود ہم اسے غنیمت جاننے میں سستی کریں گے؟ عرفہ کا روزہ دو سال کے روزوں کو کفائت کرتا ہے ، روزے کا اہتمام کیجیے۔ اگر عرفہ کے دن کے اخیر میں ہم اپنے آپ کو فارغ کرسکیں تو ضرور ایسا کرنا چاہئے۔ *خصوصا عصر سے مغرب اذان تک*۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ “خدا کی قسم میں نے عرفہ کے دن جو بھی دعائ مانگی ہے، اْسے سال گزرنے سے پہلے ضرور قبول ہوتے ہوئے دیکھا ہے”۔ اپنے ساتھ بھلائی کیجئے،اپنے اہل خانہ و خاندان کے ناموں کے ساتھ ان کے لیے دعائیں کریں ،امت مسلمہ،عالم انسانیت کو اپنی دعاؤں میں مت بھولیے، سب کے لیے امن و سلامتی ،ہدائت و رحمت ،عافیت و صحت اور رزق کریم کی دعائیں کیجیے۔اللہ رب العزت ہمیں یومِ عرفہ دیکھنانصیب فرمائے ،آمین!
٭٭٭