آج جب ہم نیویارک سٹی کے گردونواح اور نیوجرسی میں پاکستانیوں کی سیاسی میدان میں پہنچ کا جائزہ لیتے ہیں تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم جہاں50سال پہلے تھے وہی ہیں جبکہ انڈین امریکہ میں ہر میدان میں ہر جگہ داخل ہو کر اپنا گھر بنا چکے ہیں۔وائٹ ہائوس، کیپٹل ہل، ریاستی سیاست اور میونسیالیٹوں کی سیاست میں رچ بس چکے ہیںیہاں سیکڑوں تنظیموں ہیں اور بہت سے خود ساختہ لیڈر لکھاری اور دانشور پیدا ہوچکے ہیںجن کا مشن اپنی پارٹی کو زندہ رکھنا ہے یا خود کو پروموٹ کرنا ہے اگر آپ مقامی اردو اخبار اٹھا کر دیکھیں تو آپ کو وہ اخبار کم اور تشہیر نامہ زیادہ لگے گا۔سوائے ایک آدھ کے اور جو تھے وہ دوکان اپنی بڑھا گئے۔آپ کو خود ساختہ جرنلسٹ بھی مل جائینگے۔ایک آدھ کے کبھی ایسے لکھنے والے ہوا کرتے تھے جن کی تحریر ان لوگوں کے لئے چھترول کا کام کرتی تھی اور لوگ ڈرے سہمے رہتے تھے ہر چند کہ اخبار والے گریز کرتے تھے لیکن سوشل میڈیا پر وہ مقبول تھے یہاں ہمیں ایک شخص یاد آتا ہے واحد بھٹی، اب واحد بھٹی ہم میں نہیں اور نہ ہی سلیم ملک جو سب کو لے کر چلتا تھا۔شاید بدلتے معاشرے اور چالباز لوگوں میں وہ اپنی جگہ نہیں بنا سکتا تھا لہٰذا وہ اپنی آخری منزل بروقت سے پہلے پہنچ گیا۔ایک افغانی کہاوت ہے کہ ”من بتو حاجی بگویم، توبمن حاجی بگو”اردو میں یوں کہ”تو میری سن میں تیری سنوں”دوسرے معنوں میں ایک ہی تھیلی کے چٹے مٹے۔ہم سب کا تعلق ہندوستان اور اسکے کلچر سے رہا ہے جہاں افغانی، کشمیری، بلوچی،ہندو، سکھ، عیسائی، مسلمان، پنجابی، سندھی اور پٹھان کلچر مارچ بس گیا ہے۔اچھا یا بڑا ایک اور کہاوت کا سہارا لیتے ہوئے”اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنوں اپنوں کو دے۔”اب ہم بات کرینگے پاکستانی اور اس کے تعلق سے میلوں ٹھیلوں اور پریڈ کی جو اب اگست کے ماہ میں زور شور اور دھوم دھام سے ہوتی ہیںاور اگست کے ہر ہفتہ میں منائی جاتی ہیں۔یہ حب الوطنی کی سرگرمیاں یہاں بھی بروکلین سے لانگ آئی فلینڈ تک میدان سمجھتے ہیں۔ناسا کائونٹی کا آئزن ہاور پارک اس کے لئے مشہور ہے جہاں کائونٹی کی افسر اعلیٰ کے آشیرباد سے دو میلے ہوتے ہیں۔ایک ایسے ہی میلہ میں ہمیں جانے کا اتفاق ہواجہاں400افراد کا اجتماع تھاجو سب کے سب اچھے موسم اورCOVID-19کے بعد پہلے اجتماع سے مسحور ہو رہے تھے۔اس کا اہتمام علی مرزا کی تنظیم نے کیا تھا۔کائونٹی اور شہر کے ان افراد کواسناد بانٹی گئیںجنہیں بہت کم لوگ جانتے ہیں وہ یا تو انکے جاننے والے تھے یا تنظیم کے بانی کو اس علاقے کے اچھے لوگوں کے اچھے کاموں سے واقفیت نہیں ،یہ بھی سنایا گیا کہ آپ چیک دیں اور سند لیں ان میں وہ بھی شامل تھے۔جو پاکستان کی موجودہ حکومت کو دن رات اپنی لعنت کے مطابق گولیاں دیتے رہتے ہیں۔ان کا نام کسی نے تجویز کیا ہوگا۔شاید منتظمین کو آگاہی نہ ہو یا صرف انہیں چیک درکار ہو اور ایسے بھی لوگ تھے جوPTIکے عہدوں کے پیچھے بھاگتے ہیں۔وہ بڑے ہونہار تو ہیں لیکن کچھ کرکے دکھانے سے معذور ہیں۔انسان دو میں سے ایک کام کرسکتا ہے یا تو ملک اور قوم کا مفاد عزیز سمجھے یا پھر ذاتی مفاد کو ترجیح دے۔ہمارے پاکستانی دوسری بات کو ترجیح دیتے ہیں۔ممکن ہے انتظامیہ نے کسی سے مشورہ کرنا مناسب نہ سمجھا ہو۔ہر چند کہ مرحوم سلیم ملک کی خدمات کو سراہا لیکن اس کی سوچ کو اپنانے سے گریز کیا کہ سب کو لے کر چلو یہ گر علی مرزا صاحب کو کبھی نہیں ملا۔ایسا ہی ڈاکٹر اعجاز احمد کے ساتھ ہے۔وہ دوسرے ڈاکٹروں کی مدد سے بہت سے پیسے جمع کرکے مقامی سیاست دانوں کو دیتے ہیںاور یہ سیاست دان الیکشن جیتنے کے بعد انڈیا کی گود میں کھیلتے ہیں۔یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہمیں یہ کہنے میں بھی سوچنے کی ضرورت نہیں کہ نا سو کائونٹی کے اسٹیٹ سینیٹر ٹاڈ کمینیکلی اور افسر علی(LAVRA CURRAN)لارا کوران نے کائونٹی میں عام رہائشی کو کوئی سہولت نہیں دی ہے۔سڑکوں کی حالت اور ویلی اسٹریم جس کی وہ تعریف کرتی ہیں۔میں سدرن اسٹیٹ یار کولے کے اخراج اور داخلے پر جو سڑک کی حالت ہے وہ افسوسناک ہے۔ہم دوبار (KAMINSKY)کے آفس میں شکایت درج کرا چکے ہیں۔اور انکا آفس پاکستانی اسٹائل میں جائزہ لے رہا ہے۔دو ماہ ہوچکے ہیں۔یہ ہمارا ذاتی معاملہ نہیں بلکہ ویلی اسٹریم میں رہنے والوں کا ہے اور تھرڈ ورلڈ سے آئے لوگوں کو اس سے کوئی مطلب۔ہماری تنظیموں کے کرتا دھرتا لوگوں کی کارکردگی انکی ذات تک محدود ہے۔اس سے بڑھ کر وہ کشمیر کے نام میں واویلا کر لیتے ہیں۔جو بے اثر ہے۔اس میلے کی ایک اور بات کہ پروگرام میں پاکستان سے آنے فنکار اپنا رنگ جمانے سے قاصر رہے۔انہیں کم ازکم ہم فنکار نہیں کہہ سکتے۔مزید لکھنے کے لئے ہمیں سوچنا پڑیگا۔کہ یہ میلہ کیا پروموٹ کرتا ہے؟نہ ہی یہ مقامی سیاست دانوں کو پروموٹ کرتا ہے۔اگر وہ سمجھتے ہیں کہ یہ چار سو ووٹر انہیں ووٹ دینے آئینگے۔ناسو کائونٹی کی تاریخ میں صرف ایک خاتون نسرین احمد ہی ایسی تھی۔جو اپنی کارکردگی اور ہما گیر شخصیت کی بنا پر ٹائون کلرک بنی تھیں اور پاکستانی افراد کے چند ووٹ تھے کہ ہم ووٹنگ میں حصہ لینے سے اب بھی کتراتے ہیں اور تنظیموں کے کرتا دھرتا مجموعہ دکھا کر انہیں بلیک میل کرتے ہیںاور ذاتی فائدہ(جس میں فوٹو بنوانا شامل ہے)اٹھاتے ہیں۔ہمیں امید ہے کہ دوسرے میلے میں جو پہلی اگست کو ہے اور پاکولی کے زیر اہتمام ہورہا ہے۔ان باتوں کا تدارک کیا جائے گا کم ازکم اپنوں اپنوں کو اور چیک دینے والوں کو اسناد(CITATION)(تعریفی)بانٹنے سے پرہیز کرینگے کہ ان کی ذات سے ہمیں کافی اُمیدیں ہوتی ہیںجس کے لئے وہ مشہور ہیں تیسری تقریب پریڈ ہے جو شاہین ریسٹورنٹ والے کرتے ہیں اور یہ انگلی کاٹ شہیدوں میں داخلے کی مثال ہے یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہماری کائونٹی کے کرتا دھرتا اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔جو ہماری ذاتی ترجیحات کے صلے میں ہیں کیا ہم بنگلہ دیشوں سے کوئی سبق سیکھ رہے ہیں۔جو اپنی قوم کے لئے اول اور ذات کے لئے ثانوی ہیں معاملہ وہیں جاکر رکتا ہے۔ہم نے کبھی صلاحیتوں کو نہیں پرکھا پرکھنے کے لئے بھی ذہن چاہئے۔
ایک اور پریڈ کا ذکر کرتے چلیں جو نیوجرسی میں ہوتی ہے ،ہم خود شامل تھے اور یہ کہہ سکتے ہیں ایسی پریڈیں ہمیں نیویارک سٹی میں میڈیسن ایونیو پر ہونے والی پریڈ کی یاد دلاتی ہیں۔وہاں پاکستان کی جھلک ملتی تھی اور اب جزبہ کم اور تفریح زیادہ ہے جس کے اردگرد جمعہ بازار لگتا ہے اور لوگوں کو کھینچنے کے لئے دو تین گویوں کو بلا لیا جاتا ہے،اس سے بہتر کیا ہوسکتا ہے ،صرف اتنا کہ ”دل دل پاکستان” واقعی؟۔
٭٭٭