حضرت مسلم بن عقیل علیہ السلام حضرت امام حسین علیہ السلام کے چچا زاد بھائی، مرد حق، شجاع ،جری، وفادار اور امام علیہ السلام کے حقیقی عارف تھے۔ آپ اسلامی فتوحات بشمول جنگ صفین وغیرہ میں شریک رہ چکے تھے اور جب حضرت امام حسین علیہ السلام نے یزید کی بیعت کو ٹھکرا کر مدینہ منورہ کو خدا حافظ کہا تو آپ بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ مکہ مکرمہ تک تشریف لے گئے ، مکہ میں حضرت امام حسین علیہ السلام کو اہل کوفہ کے خطوط موصول ہوئے کہ ہمارا کوئی امام نہیں ہے آپ تشریف لائیے ہوسکتا ہے آپ ہماری ہدایت کریں۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کوفہ کی تہذیب، وہاں کے لوگوں کی بدلتی ہوئی طبیعت، مفاد پرستی اور بے وفائی کو بخوبی جانتے تھے ، کیونکہ اسی کوفہ میں آپ کے پدر بزرگوار حضرت امام علی علیہ السلام کو شہید کیا گیا تھا۔ ایسے شہر کیلئے کسی مخلص، وفادار اورتجربہ کار شخص کی ضرورت تھی کہ جو لحظہ بہ لحظہ رنگ بدلنے والے افراد سے باخبر رہے اور اپنے مقصد کے حصول سے ہنگامی حالات میں بھی غافل نہ رہے۔حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے مختصر قافلہ پر نظر ڈالی اور حضرت مسلم بن عقیل کو اپنا نمائندہ/ سفیر منتخب فرماکر کوفہ روانہ کردیا۔حضرت امام حسین علیہ السلام کا خط اہالی کوفہ کے نام!
حضرت مسلم بن عقیل کی روانگی سے قبل حضرت امام حسین علیہ السلام نے سعید اور ہانی بن عروہ کے ہاتھ ایک خط اہل کوفہ کے نام اس مضمون کا ارسال کیا ”یہ لوگ یعنی سعید و ہانی بن عروہ تمہارے خطوط لے کر پہنچے تمہاری تحریر کو میں نے غور سے پڑھا تمہاری بات سے یہ معلوم ہوتاہے کہ تمہارا کوئی امام نہیں ہے۔ لہذا تم مجھے بلا رہے ہو، سردست میں اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو بھیج رہا ہوں یہ میرے معتمد و ثقہ ہیں اور میں نے ان سے کہہ دیا ہے کہ وہ مجھے تمہارے حالات کی اطلاع دیں گے اگر انہوں نے اطلاع دی کہ کوفہ کے سر کردہ افراد اس بات پر متفق ہیں تو میں آجاؤں گا۔ واضح رہے کہ امام کتاب خدا پر کامل عدالت کا پابند حق اور مرضی معبود کاہمہ وقت درخواستگار ہوتا ہے”۔ والسلام حسین بن علی بن ابی طالب حضرت مسلم ابن عقیل مکہ سے مدینہ تشریف لائے اور روضۂ حضرت رسولِ خدا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم میں نماز ادا کرکے صبح ہوتے ہی کوفہ کی سمت سفر کا آغاز کردیا۔آپکے ہمراہ دو بیٹے محمد و ابراہیم تھے اور ایک غلام بھی تھا۔ بیٹے ایک سال تیرہ روز بعد از شہادت پدر شہید کر دئیے گئے تھے راستہ کی مشکلا ت برداشت کرتے ہوئے مدینہ سے کوفہ پہنچے اور حضرت مختار بن عبیدہ ثقفی کے گھر قیام پذیر ہوئے۔ پھر ہانی کے گھر حضرت مسلم کی آمد کی خبر سن کر اہل کوفہ حضرت مختار کے گھر میں جمع ہوئے آپ نے حضرت امام حسین علیہ السلام کا خط پڑھ کرسنایا تو لوگ جوش محبت و عقیدت سے رونے لگے اور بعض با اثر عقیدت مندوں نے کھڑے ہوکر اپنے جذبات کا اظہار کیا اور اپنی نصرت کا یقین دلایاـ اسکے بعد لوگ آپ کے ہاتھوں پر حضرت امام حسین علیہ السلام کی بیعت کرنے لگے۔ اگرچہ حضرت مسلم نے ان لوگوں سے بیعت کا مطالبہ نہیں کیا تھا لیکن جب وہ بہ رضا و رغبت بیعت کرنے لگے تو آپ نے ان سے اس طرح بیعت لی جس طرح حضرت رسولِ خدا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے قبیلہ بنی خزرج و غیرہ سے لی تھی۔ بیعت کے الفاظ یہ تھے ؛کتاب خدا وسنتِ حضرت رسولِ خدا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی طرف دعوت ، ظالموں اورسرکشوں سے جہاد، مستضعفین سے دفاع،محروموں کے حقوق کی بازیابی،غنائم کی صحیح تقسیم اور اہل بیت علیہم السلام کی نصرت۔ بیعت کرنے والوں کی تعداد میں اختلاف ہے اٹھارہ سے تیس ہزار بھی مشہور ہے۔اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ بیعت ایک ہی روز نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کا سلسلہ کم و بیش ایک ماہ جاری رہا تھا۔اسی لئے بیعت کرنے والوں کی تعداد معین نہیں کی جا سکتی۔ لیکن جب ابن زیاد ملعون کوفہ کا گورنر بن کر آیا تواس نے اہل کوفہ سے کہا : شام سے بہت جلد لشکر آنے والا ہے،جو تم کو تباہ و برباد کردے گا نیز تمہاری جان اور آبرو بھی محفوظ نہ رہ سکے گی۔چنانچہ وہ افراد جنہوں نے ابن زیاد کا کلا م سنا تھا ، وہاں سے نکل کر مہاجرین کے اہل خانہ کے پاس پہنچے اور ان کی ماں بہنوں اور بیویوں کو ورغلایا کہ تمہارے وارثوں کو شام کا لشکر آکر تہہ تیغ کردیگا اور لشکر آنے ہی والا ہے۔ عورتوں کا دل اپنے وارثوں، بھائیوں بھتیجوں کے قتل سے لرزنے لگا اور بے تحاشا گھروں سے نکل پڑیں اور اپنے اپنے عزیزوں کے دامن پکڑ کر فریادیں کرنے لگیں جن سے مہاجرین کے دل بھی کانپنے لگے۔ کچھ تو انہیں عورتوں کے ساتھ چلے گئے اور کچھ موقعہ دیکھ کر فرار ہوگئے اور حضرت مسلم وہاں پہنچے تو بہت مختصر افراد کوموجود پایا۔ اگرچہ عام مشہور یہ ہے مغرب کی نماز میں وہ مذکورہ تعداد اور عشاء ہوتے ہی آپ کے پا س صرف اٹھارہ یا تیس افراد بچے تھے اور بعض روایات ہیں ہے کہ اسی قلیل تعداد تیس کے ساتھ آپ نے نماز مغربین ادا کی نماز کے بعد ان میں سے بھی دس فرار ہوچکے تھے۔ حضرت مسلم مسجد سے باہر تشریف لائے تو دیکھا کہ آپ کے ساتھ دس ہی افراد رہ گئے ہیں انہیں لوگوں کے ہمراہ آپ باب کندہ کی طرف روانہ ہوئے حضرت مسلم محلہ کندہ میں جس وقت پہنچے تو اپنے کو تنہا پایا اب آپ کے ہمراہ کوئی راستہ بتانے والا بھی نہ تھا اورابن زیاد کی دھمکی آمیز تقریر سے کوفہ میں سناٹا سا چھایا ہوا تھا۔ہر ایک کے مکان کا دروازہ بند نظر آتا تھا۔ وا غربتاہ حضرت مسلم کی نگاہ ایک عورت پر پڑی جواپنے دروازہ پر کھڑی اپنے بیٹے کا انتظار کررہی تھی چونکہ حضرت مسلم پر پیاس کا شدید غلبہ تھا اور دوسری طرف کوفیوں کی غداری کے احساس نے بھی کافی متاثر کردیا تھا آپ نے اس عورت کے پاس جاکر سلام کیا اور کہا میں پیا سا ہوں مجھے پانی پلادو۔ اس عورت کانام طوعہ تھا جو پہلے محمدبن اشعث کی کنیز تھی اور آزادی کے بعد اسید حضرمی کے نکاح میں آگئی تھی اس سے ایک لڑکا بلال پیدا ہوا وہ اسی لڑکے کا انتطار کررہی تھی طوعہ اندر سے پانی لائی مسلم نے پانی پیا پھر وہ کاسہ رکھنے اندر چلی گئی اور جب لوٹ کر آئی تو دیکھا کہ وہ شخص دروازے ہی پر بیٹھا ہوا ہے۔ طوعہ نے کہا اے بندہ خدا کیا میں نے تمہیں پانی نہیں پلایا ؟ اس کے بعد فوراً حضرت مسلم سے کہا : تم اب اپنے گھر کیوں نہیں جاتے ؟ مسلم خاموش رہے اس نے دوتین مرتبہ کہا تومسلم نے جواب دیا! اے کنیزِ خدا میرا اس شہر میں کوئی گھر نہیں ہے پوچھا کہ کیا تم اپنے گھر میں مجھے پناہ دے کر ثواب حاصل کروگی؟ ممکن ہے اپنی زندگی میں،اس کا کچھ عوض دے سکوں۔طوعہ نے پوچھا آپ کون ہیں؟ آپ نے فرمایا: میں مسلم بن عقیل ہوں کوفہ والوں نے میرے ساتھ غداری کی ہے۔طوعہ نے کہا آپ مسلم ہیں آئیے میرا گھر حاضر ہے آپ داخل خانہ ہوئے طوعہ نے ایک الگ کمرے میں فرش لگایا کھانا لائیـ مگر آپ نے کھانا تناول نہیں فرمایا۔ اسی اثناء میں طوعہ کا لڑکا بلال آگیا اس نے اپنی ماں کو جب اس کمرہ میں باربار آتے جاتے دیکھا تو معلوم کیا کہ آپ اس کمرہ میں آج بار بار کیوں داخل ہو رہی ہیں ؟بیٹے کی ضد نے اس کو یہ راز بتانے پر مجبور کردیا پہلے اس نے بیٹے سے کہا : تم یہ قسم کھاؤ کہ یہ بات کسی سے نہیں بتاؤ گے اس نے قسم کھائی تو طوعہ نے کہا کہ آج ہمارے گھر میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے سفیر حضرت مسلم بن عقیل مہمان ہیں وہ یہ بات سن کر خاموشی سے لیٹ گیا۔ لیکن صبح ہونے کا بے چینی سے انتظار کرنے لگا، صبح ہوتے ہی طوعہ کا لڑکا بلال، عبدالرحمن بن محمد بن اشعث کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ حضرت مسلم بن عقیل ہمارے گھر میں موجود ہیں ـ عبدالرحمن، فورا ہی ابن زیاد لعین کے دربار میں اپنے باپ کے پاس پہنچا اور اس کے کان میں آہستہ سے کہا کہ مسلم ہمارے محلہ کے گھر میں چھپے ہوئے ہیں۔ ابن زیاد نے پوچھا کہ لڑکا کیا کہہ رہا ہے؟محمد بن اشعث نے جواب دیا کہ کہتا ہے مسلم بن عقیل ہمارے گھروں میں سے کسی گھر میں ہیں۔
حضرت مسلم کی گرفتاری کیلئے ابن زیاد ، ابن مرجانہ نے محمد بن اشعث کی سرکردگی میں اس نے ابتداء 80 سواروں کو روانہ کیا جبکہ بعد میں اور بھی دستوں کی بھی آمد درج ہے یہ لشکر طوعہ کے گھر کے قریب پہنچا تو حضرت مسلم نے ہتھیاروں کی جھنکار اور گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سنی۔ ذرّہ پہن کر گھر سے باہر نکلنا ہی چاہتے تھے کہ ابن اشعث کا لشکر گھر میں داخل ہوا اور حضرت مسلم کو گرفتار کرنے کے نتیجہ میں جنگ شروع ہوگئی اور تن تنہا مسلم نے لشکر کوتین مرتبہ گھر سے باہر نکال دیا۔ جب ابن زیاد کے سپاہیوں نے دیکھا کہ اس طرح مسلم بن عقیل پر ہم قابو نہیں پاسکیں گے تو انہوں نے مکانوں کی چھتوں سے حضرت مسلم پر پتھر اور آگ برسانا شروع کردی ، حضرت مسلم بن عقیل اس بکاؤ لشکر کی بزدلی اور گھٹیا پن کو دیکھ کر طوعہ کے گھر سے نکل آئے اور دلیرانہ جنگ کرنے لگے۔ محمد بن اشعث کے بہت سے سپاہیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ حضرت مسلم کے حملوں کودیکھ کر ابن اشعث سمجھ گیا کہ مسلم کو اس طرح گرفتار نہیں کیا جاسکتا لہذا اس نے کہا مسلم آپ کیلئے امان ہے تو آپ نے فرمایا:کیا فریب کار اور بدکردار لوگوں کی امان پر اعتماد کیا جائے؟ مشہور ہے کہ پشت کی طرف سے گڑھا کھودا گیا اور تین طرف سے حملہ کیا گیا۔ آپ گڑھے میں گر گئے۔ تو مسلسل تہاجم پیہم و بسیار سے چور چور ہوگئے تھے آپ کو اسیر کرکے ابن زیاد کے پاس لایا گیا؛ کسی نے کہا اے مسلم تم نے امیر کو سلام کیوں نہیں کیا ہے؟ تو حضرت مسلم بن عقیل نے فوراً جواباً فرمایا کہ *”ما لِیَ الاَمیر سوی الحسین”* یعنی حضرت امام حسین علیہ السلام کے علاؤہ میرا کوئی امیر نہیں ہے۔ اسی وقت سے آپ امیر مسلم مشہور ہوگئے اور جب حضرت مسلم نے اپنی شہادت کے آثار محسوس کئے تو وصیت کیلئے مہلت طلب کی۔ ابن زیاد نے کہا وصیت کی اجازت ہے۔حضرت مسلم نے ایک مرتبہ پورے مجمع پر نظر ڈالی عمر سعد کو وصیت کی۔مجبوری کی حالت میں کمینے، نالائق اور گھٹیا کو وصیت کرنی پڑی لہذا حضرت مسلم نے بھی ابن سعد کو فرمایا تم سے میری ایک خواہش ہے لیکن ابن سعد نے اس کو قبول کرنے سے انکار کردیا،ابن زیاد نے کہا سن تو لو کیا کہتے ہیں؟ ابن سعد، حضرت مسلم کے پاس گیا آپ نے اس کو یہ وصیت کی کہ جب میں کوفہ آیا تھا تو اس وقت میں نے چھ سو درہم قرض لئے تھے۔ ان کومیری ذرہ اور تلوار فروخت کرکے ادا کردینا اور میری شہادت کے بعد ابن زیاد سے میری لاش لیکر دفن کردینا اور حضرت امام حسین علیہ السلام کو خط لکھ کر اس حادثہ سے مطلع کردینا اور لکھنا کہ وہ کوفہ تشریف نہ لائیں ۔ ابن زیاد نے حکم دیا کہ مسلم کو دارالامارہ کی چھت پر لے جاکر شہید کردیا جائے جب حضرت مسلم کو چھت پر لے جایا گیا تو اس وقت آپ یادِ خداوندِ متعال میں مصروف تھے۔ جلاد احمر بن کبیر نے حضرت مسلم بن عقیل علیہ السلام کا سر تن سے جدا کیاـ سر دارالامارہ کے صدر دروازہ پر لٹکا دیا گیا اور لاش کو زمین پر پھینک دیا گیا بعد میں رسی پاؤں میں ڈال کر لاش کو پورے کوفہ میں پھرا یا گیا اسے عرب مثلہ کہتے ہیں۔ جاہل عرب بھی لاشوں کا احترام کرتے تھے۔ لا شوں کی پامالی یہاں سے شروع ہوئی۔ الا لعنت اللہ علی القْوم الظالمین *اِنّا للّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیہِ راجِعون
٭٭٭