ہم دو مرتبہ افغان جنگ میں کیوں کودے؟ ہم بار بار ہائوس آف شریف اور ہائوس آف زرداری کو اقتدار میں کیوں لاتے رہے؟ ہم امریکہ اور برطانیہ کو اپنے داخلی معاملات اور سیاسی امور میں دخل اندازی کی کیوں دعوت دیتے رہے؟ جنرل ضیاء الحق مرحوم نے پہلی افغان جنگ میں پوری قوم کو جھونک دیا اور پھر سحر انگیز نعرے کے تحت اس جنگ کو جہاد افغانستان کا نام دے کر دیگر مسلمانوں کو جوکہ دنیا بھر سے عرب اور افریقی ممالک سے پاکستان آئے مجاہدین کا نام دے کر افغانستان بھیجا۔ پاکستان کو امریکہ نے اس جنگ کے لیے اربوں امریکی ڈالرز دیئے’ افغان جہاد لڑا گیا’ روس سرزمین افغانستان سے نکل گیا اور پھر بعد میں سوویت یونین بھی بکھر گیا۔ امریکہ نے یہ جنگ ختم کردی اس کے بعد جو منظر بنا ہم نے سرزمین پاکستان پر پچاس لاکھ سے بھی زائد افغانستان مہاجرین کوپناہ دی دیگر مسلم عرب ممالک کے ہزاروں کی تعداد میں ان کے شہری بھی پاکستان ہی میں آباد ہو گئے۔ نائن الیون ہوا تو ہم پھر ایک بار افغان جنگ میں شریک ہو گئے۔ ماضی کے مجاہدین اب دہشت گرد قرار دیے گئے۔ جنرل پرویز مشرف نے امریکہ کی تمام شرائط مان کر سرزمین پاکستان پر امریکی فوجی اڈے بنانے کی اجازت دے دی’ ہماری سرزمین پر امریکی سی آئی اے اور ایف بی آئی کے علاوہ بلیک واٹرز کے خفیہ ایجنٹ کھلے عام کارروائیاں کرنے لگے۔ ڈرون حملے بھی سرزمین پاکستان پر ہوتے رہے۔ ہمارے حکمران عوامی سطح پر اس کی مذمت کرتے رہے اس طرح ہمارے حکمران امریکی غلامی کو اعزاز تصور کرتے رہے اور پھر ساتھ ہی اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کی غرض سے امریکہ جا کر مدد طلب کرتے رہے۔ میاں نوازشریف سے لے کر آصف زرداری تک اور پھر جنرل پرویز مشرف خود امریکی برطانوی حکام کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے شاہی خاندانوں سے بھی اپنے اقتدار کے لیے ان کا تعاون مانگتے رہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور جنرل پرویز مشرف کی دبئی میں ڈیل طے ہوئی اور پھر میاں نوازشریف کو بھی اس ڈیل کا حصہ بنا کر پاکستان آنے کی اجازت دی گئی۔ پاکستان میں اقتدار کے لیے خفیہ ڈیل کے حوالے سے امریکہ کی سابق سیکرٹری خارجہ کونڈا لیزا رائس اور امریکہ کے صدر بل کلنٹن کے علاوہ صدر جارج بش اپنی یادداشتوں میں تفصیل سے اس کا ذکر کر چکے ہیں۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ماضی میں پاکستان میں اقتدار کے لیے غیر ملکی قوتیں سرگرم رہی ہیں۔ پاکستان نے افغان جنگ میں امریکہ کا اتحادی بن کر اپنے ستر ہزار شہریوں کی قربانی دی جن میں فوجی جوان اور افسر بھی شامل ہیں’ ان قربانیوں کا کیا صلہ ملا پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا اور ہمارے قبائلی علاقے میدان جنگ بن گئے مگر افسوس یہ کہ ہمارے حکمرانوں نے امریکی احکامات کو عملی جامہ پہنائے رکھا اور اپنے ہی شہریوں کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا۔ اس پور ے کھیل میں رحمن ملک اور حسین حقانی نے جو کھیل کھیلا وہ سب کے سامنے ہے۔ آصف زرداری اپنے تینوں بچوں کے ہمراہ امریکہ سرکاری دورے پر گئے۔ وائٹ ہائوس میں صدر بارک حسین اوباما سے خصوصی ملاقات کی اور بلاول زرداری کو پاکستان میں مستقبل کے وزیراعظم کے طور پر متعارف کروایا۔ یہ ہی صورتحال میاں نوازشریف کی تھی وہ اپنی صاحبزادی مریم نواز کو مستقبل کی وزیراعظم کے طور صدر اوباما کی اہلیہ سے ملواتے ہیں۔ یہ اصل حقیقت ہے ہائوس آف شریف اور ہائوس آف زرداری کی یعنی ان کی آئندہ کی نسلیں پاکستان کی مقدر کے فیصلے کریں گی اور ان کو اقتدار میں لایا جائے گا۔ حصول اقتدار اور کرپشن کے مقدات سے جان چھڑانے کی جنگ جاری ہے تاکہ دوبارہ اقتدار میں آ کر لوٹ مار کریں۔ آصف زرداری کا یہ کہنا کہ حکومت چل ہی نہیں رہی تو حکومت ہے کہاں۔ ان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کیونکہ یہ پورا قومی خزانہ لوٹ کر لے گئے۔ برطانیہ’ فرانس اور امریکہ کے علاوہ دبئی میں ان کے اثاثے اور جائیدادیں موجود ہیں ان کے خلاف کرپشن کے مقدمات موجود ہیں۔ یہ برابر عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بلاول ہائوس کراچی میں بھی اور لاہور میں بھی مستقبل میں سیاسی جوڑ توڑ کے لیے زرداری صاحب مصروف ہیں۔ اندازہ کرلیں شرجیل میمن’ رائو انور یہ سب آزاد ہیں۔ فریال تالپور کوکروڑوں روپے کا مہانہ بھتہ دینے والے عزیر بلوچ بھی رفتہ رفتہ مقدمات سے باعزت طور پر بری ہوتے چلے جا رہے ہیں ان پر نہ حکومت وقت کی کوئی گرفت نہ اس دھرتی کا قانون ان کا کچھ بگاڑ سکا اور نہ ہی عدالتیں کوئی سخت سزائیں ان کے لیے تجویز کرتی ہیں یعنی اب حالت یہ ہے کہ سرزمین پاکستان پر Pakistani Dominance Group پی ڈی جی اپنے قدم جما چکا ہے اور یہ مافیا کی شکل میں پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ ماضی کے بائیس خاندانوں سے بڑھ کر اب کئی سو خاندان قومی دولت پر قابض ہیں اور پاکستانی سیاست میں موروثی سیاست کو فروغ دینے میں ان کا کردار ہے جو کہ پورے نظام کو اپاہج کر چکا ہے۔ قومی تقاضا ہے کہ جس جس نے بھی قومی خزانہ لوٹا ہے ان کو قومی مجرم قرار دے کر ان کے اثاثے اور جائیدادیں ضبط کرلی جائیں اور پھر ذرا غور کریں کہ سوئٹزرلینڈ اور فرانس سے تعلق رکھنے پولیٹیکل رائٹر بنجمن کونسٹنٹ نے کیا کہا تھا: Nothing on Earth can ever Justify a crime. If you and amnesty to the past, you are corrupting the future. ذرا اپنے آپ سے پوچھئے’ مضبوط اور مستحکم پاکستان کے لیے صاف ستھرے اور کرپشن سے پاک مضبوط نظام کی ضرورت ہے۔
٭٭٭