ہجوم جو بکھر گیا !!!

0
89
رمضان رانا
رمضان رانا

سیاسی یا سماجی پارٹی کا مطلب تنظیم ہوتا ہے جو کچھ اصولوں اور ضابطوں پر تشکیل پاتی ہے جس کا باقاعدہ کوئی ایجنڈا اور نظریہ ہوتا ہے جس کے کارکن اور عہدیدار تنظیم کے ضابطوں اور اصولوں کے پابند ہوتے ہیں جبکہ ہجوم ایک غیر منظم اجتماع ہوتا ہے جو کسی حادثے یا واقعہ پر جمع ہوتا ہے جب وقوعہ ختم ہوجاتا ہے تو ہجوم بکھر جاتا ہے جو کسی قاعدے اور قانون کا پابند نہیں ہوتا ہے لہٰذا عمران خان کی پارٹی پی ٹی آئی ایک ہجوم ثابت ہوئی ہے جو صرف گانے بجانے ناچنے کودنے گالی گلوچ پر جمع ہوئی تھی جو ہلے گلے کے شوقین تھے جب اجتماع ہوا تو ہجوم چلا گیا ہے وہ ہجوم جس کی بنیادیوں اور ججوں نے رکھی تھی جس کی ہر ممکن امداد کی گئی کہ جس کے بڑے بڑے جنرل اور جج سہولت کار بنے اس کو جنرلوں نے ہی ختم کردیا کہ جس میں کوئی باہر کا عنصر شامل نہ ہو لہذا پی ٹی آئی ایک تماشہ تھا جس کے تماشبین چلے گئے۔ مزید برآں عمران خان کی پارٹی میں اسی طرح لوگ آئے تھے جس طرح موسمی پرندے موسم بدلنے پر ایک علاقے سے دوسرے علاقوں کی طرف پرواز کرتے ہیں جب موسم بدل جاتا ہے تو وہ واپس اپنے اپنے علاقوں کی طرف کوچ کر جاتے ہیں جس کی چند وجوہات ہیں کہ ان کے ساتھی اور حمائتی کیوں چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ اول پی ٹی آئی کوئی پارٹی نہ تھی ایک گروہ یا ہجوم تھا جو تماشے کے بعد چلا گیا دوسرا یہ پارٹی یا ہجوم جنرلوں نے بنایا تھا جس کا نظریہ صرف ا ور صرف سیاستدانوں کو گالی گلوچ کرنا تھا جب ان کی ضرورت نہ رہی تو وہ بکھر گیا۔
سوم عمران خان کے ساتھ ماضی میں بڑے بڑے سیاستدانوں معراج محمد خان، جاوید ہاشمی، جسٹس وجہہ الدین، ایڈمرل جاوید اقبال اور بابر اویس اور دوسرے لوگ آئے جو ان کے بدترین سلوک کی وجہ سے چلے گئے جس کا تسلسل اب تک جاری کہ لاتعداد پارٹی کے عہدیداران عمران خان کے سلوک سے خوش نہ تھے جس کا اب وہ پارٹی چھوڑنے کے بعد اظہار کر رہے ہیں۔ چہارم عمران خان کے ساتھ شامل لوگ بزدل نکلے جو چند دن کی جیل برداشت نہ کرپائے جنہوں نے معافیوں اور تلافیوں سے اپنی جان چھڑائی ہے پنجم عمران خان کے ساتھ امراء کلاس تھی جو سیاسی مشکلات اور مصائب کی عادی نہ تھی لہذا وہ ریاستی دبائو برداشت نہ کرپائی۔ ششم عمران خان کو ان کے مذہبی پنڈتوں نے برباد کیا جو آدھا تیتر اور آدھا بیٹر کا درس دیتے رہے جس سے وہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔ ہفتم وہ لوگ جو بیرون ملک سے درآمد کئے گئے شہباز گل، زلفی بخاری، شہزاد اکبر اور نہ جانے کون کون تھے وہ آندھی آنے سے پہلے اڑ گئے ہشتم عمران خان اپنے جھوٹے اور شیطانی خوابوں کی تعبیر نہ سمجھ پایا جس کی وجہ سے وہ نعوذباللہ خدا بنا بیٹھا تھا جنہوں نے مذہب اسلام کی ان اصطلات کو ا ستعمال کیا جو شرک میں شامل ہیں جس سے ان کے کارکن اور عہدیدار بہت بدظن تھے جس میں سیاسی پارٹی کو کذابی فرقہ نظر آرہا تھا۔ وغیرہ وغیرہ بہرکیف عمران خان اس درخت کی مانند ہے جس کی تمام شاخیں کاٹ دی جائیں جس کے تمام پتے جھڑ جائیں تو وہ ایک بنا سایہ درخت کھڑا ہوتا ہے جو وہ اس کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ وہ آج اکیلا کھڑا تھا جس پر عمران خان نے اپنے حال کے سپاہانوں اور نگرانوں جنرل باجوہ کو گالی گلوچ کے ذریعے رسوا کیا جن کے خلاف بین الاقوامی مہم چلائی گئی جس میں افغانوں تک استعمال کیا گیا ہے آج وہ جنرل گل فیض حمید کو بھی کوس رہا ہے کہ انہوں نے ان کی کمر میں چھرا گھونپا ہے جو دھرا پن سے عمران خان کو بیوقوف بناتا رہا تھا جس کے بعد ثابت ہوا کہ جو بویا تھا وہ کاٹا جارہا ہے بہرحال عمران خان کی پارٹی کا کام تمام ہوچکا ہے جو اب کسی دوسرے جرنیلی معجزے کا منتظر ہے جوکہ وہ ان کی ڈھوبی ہوئی کشتی کو باہر نکالے جو بہت مشکل نظر آتا ہے۔ کے وہ شاید مافیا کے بارے میں نہیں جانتا ہے وہ کس طرح اپنے کارندوں کو استعمال کرکے پھر قتل کر دیتا ہے تاکہ وہ گواہی کے قابل نہ رہے یہی حال عمران خان کے ساتھ ہوا ہے کہ جنرلوںنے پیدا کیا۔ پروان چڑھایا بری طرح استعمال کیا پھر مار ڈالا کہ آج ان کے اردگرد وہ تمام لوگ جنرلوں کے اشاروں پر چھوڑ گئے جن پر پر وہ بھروسہ اور اعتبار کرتا تھا۔ جن کی خاطر عمران خان نے اپنے ہمدردوں کو پارٹی سے نکالا تھا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here