قلاش قوم، قلاش حکمران۔ قلاش معاشرہ!! !

0
99
کامل احمر

جب ایک لکھاری لکھنے بیٹھتا ہے تو اسکے ذہن میں پہلے سے پلاٹ اور سوچ ہوتی ہے۔کالمسٹ کے لئے بڑا مسئلہ ہے کہ جس تیزی سے پاکستان کی سیاست کے مناظر بدل رہے ہیں اس کے ساتھ ہی اسکی سوچ بھی بدلتی ہے۔ پچھلے ہفتہ جب بہاولپور کا سانحہ سامنے آیا تو ہم نے معلومات لینا شروع کیں جس میں بااثر سیاسی لوگ بھی شامل تھے ایک فوجی آفیسر کے ساتھ ہمیں تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کہ اب تک بچہ بچہ جان چکا ہے کہ کیا کچھ ہوا ہے اور اس کا بھی یقین ہے کہ کچھ نہیں ہوگا جس طرح قطور کی زینب کی رونگٹے کھڑی کر دینے والی واردات میں ایک آلہ کار کو پھانسی دے کر کیس بند کردیا تھا یہاں بھی ایسا ہی ہوگا، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لڑکیاں سوشل میڈیا پر آکر آماہ یکاء کریں۔ اور اقرار حسن ان بدمعاشوں کو منظر عام پر لائے۔ اگر آج سعادت حسن منٹو زندہ ہوتا تو وہ لکھتے لکھتے تھک جاتا اور لوگ اس کو پڑھنا بھول جاتے۔ جیسا کہ آج ہم ذہنی طور پر قلاش ہوچکے ہیں کہ لکھنے کا فائدہ نہ حکمرانوں کی آنکھیں کھلتی ہیں اور نہ ہی عوام باز آتے ہیں اپنے مکروہ جرائم سے منٹو نے1950سے پہلے اور بعد کے معاشرے میں جو گندگی اور بے راہ روی تھی اس کو اپنی تحریروں سے پڑھنے والوں تک پہنچایا ہے۔ اگر تقسیم ہند کے واقعات اور بے قصور لوگوں کی قربانیوں کا ذکر کیا جائے کہ جو پاکستان بننے میں دی گئیں تو دل کہتا ہے کہ ہمیں ایسے پاکستان کی ضرورت کیا تھی؟ کہ منٹو کو ”کھول دو” لکھنے کی ضرورت پیش آئی کہ پڑھنے والا سوچتا ہی رہ جاتا ہے اور پھر وہ ایسے ہی واقعات اور اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ حالات کا عادی ہوجاتا ہے کہ اس کی سوچ کے تانے بانے الجھ جاتے ہیں ذہن قلاش ہو جاتا ہے آج ہمارا ذہن بھی قلاش ہے۔ کہ کیا لکھیں کیسے لکھیں اور کیوں لکھیں کہ کوئی پڑھنے والا نہیں وہ یہ سب جانتے ہیں وہ سب اس مشاہدے اور تجربہ سے گزر رہے ہیں جس کا ذکر منٹو کر چکا ہے اپنے افسانوں میں اپنی باتوں میں جب بھٹو نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ بلند کیا تو منٹو بہت سال پہلے لکھ چکا تھا۔ خالی پیٹ کا مذہب روٹی ہے سوچ کے آگے بڑھائیں تو ذہن میں بریانی کی وہ پلیٹ آتی ہے جو ووٹ کے بدلے دی جاتی ہے اس نے ایک جگہ لکھا ہے ”میں تہذیب، تمدن اور سوسائٹی کی چولی کیا اتارونگا جو ہے ہی ننگی ”غور کریں حالیہ اسلامی یونیورسٹی بہاولپور کے سانحہ کی اور سوچیں کہ ایسا کیوں ہوا اگر عورت اس دور میں بھی اتنی مجبور اور کمزور ہے کہ آسانی سے درندوں کی حوس کا شکار ہوجائے اور پھر رو رو کر کہے یہ ہوا وہ ہوا سوچیں کہ اس کے نزدیک تعلیم(بے ہودگی) ضروری تھی یا اسکی عزت اور اسکے جسم کا تقدس وہ ہرنی نہ تھی جس کے پیچھے شیر بھاگے اور دبوچ لے اور اب ہم حکمرانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں اور انصاف ڈھونڈ رہے ہیں دونوں ہی قلاش ہیں۔ منٹو کا یہ کہنا سو فیصدی درست ہے۔ ضیاء الحق صاحب مرحوم نے ہیرا منڈی بند کردی اور نہیں سوچا کہ معاشرے پر اس کا کیا اثر ہوگا شاید ان کا ذہن مذہب کی لپیٹ میں تھا ذہن قلاش تھا(انکی روح سے معذرت کے ساتھ، مرنا ہمیں بھی ہے) اسی ہیرا منڈی کے بارے میں منٹو لکھ گیا ہے۔
”ہیرا منڈی ایک ایسا اندھا کنواں ہے جس کو دنیا بھر کے سیٹھ مل کر بھی اپنی دولت سے نہیں بھر سکتے” پھر منٹو کہتا ہے میں منوں من مٹی کے نیچے دبا سوچ رہا ہوں کہ دونوں میں کون بڑا افسانہ نگار ہے خدا یا وہ خود” یہ کہانیاں لو خدا ہی لکھ رہا ہے انسان کیا لکھے گا لیکن خدا نے انسانوں کو اشرف المخلوقات کہا ہے وہ دماغ سے سوچ سکتا ہے کہ آگے کھائی ہے اور ظلم کے خلاف لڑ سکتا ہے جو پاکستانی قوم سے پہلے والی قوموں نے کیا ہے لیکن وہ قومیں تھیں۔ ترک، رومن، فرینچ، روسی، اور افریقن آج یہ سب آزاد ہیں اور پاکستانی ان کے غلام ہیں جو باہر کی غلامی کر رہے ہیں اسی قوم کو منٹو نے ایک پیغام بھی دیا تھا جب اس پر فحاشی کا الزام لگا تھا”اگر تم میری کہانیوں میں گندگی دیکھتے ہو تو یہ اس سوسائٹی کی ہے جس میں تم رہتے ہو، میں تو صرف دکھا رہا ہوں” کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہم ایسے ایک اچھی سوسائٹی کیسے بنا سکتے تھے اور ہیں لیکن ہماری سوچ کی حدیں کنارے پر ہیں اور ذہن قلاش کہ ملک بننے کے 75سال بعد بھی ہم تنزلی کا شکار ہیں۔ اور ہم پر حکومت کرنے والے جانتے جب امریکہ کہتا ہے” پاکستان کی معاشی ترقی امریکہ کی اولین ترجیح ہے اور اس کے لئے شرکت داری برقرار رکھینگے۔ سیکرٹری وزارت خارجہ انتھونی بلنکن نے فون پر بلاول سے کہی یہ بھی قلاش ذہن کا جھوٹ ہے کہ یہ بات کہی ہے اور یہ بھی جھوٹ کہ اس میں کوئی صداقت ہے۔
اسرائیل نے پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر کچھ کہا تو حکومت کے مہرے بول پڑے کہ عمران اسرائیل کا ایجنٹ ہے”یہ نچلے درجے کے قلاش ذہن ہیں چونکہ وقتی طور پر خود آوارہ کتوں کی طرح بھونکتے رہتے ہیں جس ملک کے عوام کی اکثریت دو وقت کی روٹی کے لئے ترسے اور اسکے حکمران جو عوام کی پسند نہیں جن کی حکومت ادھار کے پیسوں سے چلے اور جس کا وزیراعلیٰ محسن نقوی اعلان کرے کہ وزراً اسمبلی ممبران، کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور دوسرے ماتحت افسروں کو بڑی اور درمیانے سائز کی نئی گاڑیاں دینے کا اعلان کرے۔ پھر جھنڈے کے لئے خزانے سے40کروڑ مانگے مال مفت دل بے رحم اور قلاش ذہن کے تحت ایک باشعور نے اس حکم کے خلاف اس قلاش پر مقدمہ دائر کردیا ہے یہ ایک قطرہ ہے سمندر میں احتجاج کا۔
اور یہاں لکھتے لکھتے ذہن بکھر جاتا ہے کہKPKسے باجوڑ میں ہونے والی JUIکے جلسے میں خودکش حملہ آور نے بم پھاڑ دیا اور22افراد جاں بحق اور200کے قریب زخمی ہوگئے اس جلسے میں حمد اللہ اور مولانا فضل الرحمن کو بھی شریک ہونا تھا لیکن شاید انہیں امریکہ نے فون پر بتا دیا ہو یا عاصم منیر نے بلوا لیا ہو ملک کو سر سبز وشاداب بنانے کے مشورے کرنے کے لئے کبھی آپ نے سوچا ہے کہ کسی ملک کا کمانڈر انچیف کھیتی باڑی میں پڑے جب کہ انڈیا ہمارے بارڈر پر ہو۔ قلاش ذہن کی اس سے بدترین مثال نہیں ملتی لیکن انہیں بھی ریٹائرمنٹ سے دو دن پہلے کمانڈر انچیف بنایا گیا تھا کہ یہ ان کے احکامات بہتر طور پر بجا لائینگے۔ جب امریکہ بیرونی معاملات میں کہیں بھی بہتر فیصلے نہیں کرتا جس کا سارا بوجھ مہنگائی کی شکل میں عوام پر پڑتا ہے آپ اس کا اندازہ صدر بائیڈین کی وہائٹ ہائوس سیکرٹری کی باڈی لینگوئج اور اس کے لباس سے لگا سکتے ہیں کہہ سکتے ہیں ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ صدر بنیگے کہ کس ملک کو چلانے کے لئے قلاش ذہنوں کی ضرورت نہیں۔
آج پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ قلاش ذہنوں کی وجہ سے ہے ہماری عدالتوں میں کیا ہو رہا ہے ہمارے ججیز بھی قلاش ذہن کی پیداوار ہیں اور عاصم منیر کی حرکات سے ثابت ہوچکا ہے کہ وہ سب سے بڑا قلاش ذہن اور سوچ کا مالک ہے جو چوروں اور ڈاکوئوں کو امریکہ کے حکم پر سیلوٹ کرتا ہے اور ان سے کچھ نہیں کہتا” حضور یہ منظور نہیں” تو ہم یہ ہی کہینگے کہ امریکہ جانتے بوجھتے چوروں، کرپٹ سیاستدانوں اور عقل سے پیدل حکمرانوں کو سنبھال کر رکھتا ہے۔ امریکہ نے بھی شاید ہالی وڈ کی ایک فلمWALL STREET کے مائیکل ڈگلس کے اس جملے سے بہت متاثر ہے”GREED is Good” امریکہ نے یہ جملہ فوج کے جنرلوں پر آزمایا ہے۔اور نتیجہ سامنے ہے سابق کمانڈر انچیف باجوہ ”جیسے امریکہ21توپوں کی سلامی بھی دی تھی اب کروڑوں ڈالرز سے کھیل رہے ہیں اور ذلیل وخوار ہو رہے ہیں ملاحظہ ہو ہمارے جنرلوں اور سیاست دانوں نے ڈالرز کے لالچ میں ملک کا کس قدر ستیاناس کیا ہے۔ کہ جنرل کیانی2380ارب اور آسٹریلیا میں جزیرے کے مالک جنرل باجوہ2520ارب اور بلجیئم میں جزیرے کا مالک، نوازشریف2275ارب اور لندن میں جائیداد، شہبازشریف2210ارب اور لندن جائیداد، راحیل شریف سعودی عرب میں شہزادوں کی چوکیداری اور2013ارب کے علاوہ یورپ میں جزیرے کے مالک اور آخر لیکن قطعی نہیں آصف زرداری1935ارب اور دبئی میں کئی جائیدادیں اسی طرح اسحاق ڈار مشرق وسطیٰ میں کئی عمارتوں اور اسپورٹس کار کے ڈیلر ایک بہت لمبی لسٹ ہے اور ہم مزید لکھنا نہیں چاہتے کہ جو عوام جانتے ہیں وہ ہی ہم بس یاد دلاتے رہتے ہیں۔ اور امید کرتے ہیں کہ ملک کے حالات بدلیں۔ جمہوریت کا ڈھکوسلہ ختم ہو اور ملک کو ایک طاقتور اور ذہنی طور پر بیدار خوف خدا سے لبریز رسول کے نقش قدر پر چلنے والاک، حاکم مل جائے اور ایسا صرف عمران خان ہے لیکن وہ آج کل ایک قلاش جنرل قلاش حکومت اور عدلیہ کی بے راہ روی کا شکار ہے۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here