جس ملک میں لوگوں کی زندگی تنگ کر دی جائے اور اس کو ملک سے باہر جانے کے لئے دبائو اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جائیں اور سونے پہ سُہاگہ حکومت پاکستان اس کو دبئی میں بھی رہنے نہ دے اور وہاں کی حکومت سے اسکو وہاں سے نکلوانے کی ہدایت کرے اور اس غریب کے پاس کوئی اور ملک نہیں تھا جہاں کا ویزہ لے سکے۔ کیونکہ اس نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس کو اپنا ملک چھوڑنا پڑے گا اور اس نے کسی بھی ملک کا ویزہ نہیں لگوایا کیونکہ وہ پکا پاکستانی تھا اس کو کسی ملک کے ویزے کی ضرورت نہیں تھی اب خبر آئی کہ تحقیقاتی صحافی جو بہت ہی نڈر اور بے باک صحافی تھا اس کا صرف یہی قصور تھا کہ وہ بڑی سچائی سے اپنا کام کر رہا تھا اسکو کینیا نیروبی میں گولی مار کر ہلاک کردیا گیا اس خبر نے پورے ملک کو سوگوار کردیا وہ کون سی آنکھ تھی جو اشکبار نہیں تھی اور اب اس بہادر انسان کا جنازہ اسی ملک میں لایا جارہا ہے جہاں اس کو رہنے نہ دیا گیا کیونکہ مجبوری ہے اس کی فیملی پاکستان میں ہے اس کی بہادر ماں جو اپنے شوہر اور بڑے بیٹے کو دفنا چکی ہو وہاں پھر سے اس کے بیٹے کو شہید کر دیا گیا لیکن اس بہادر صحافی کی ماں ہمت اور اسقامت کی مثال بنی ہوئی ہے اور اسکو ہی فکر ہے کہ اسکا مشن ختم نہیں ہونا چاہئے لیکن ابھی اس کی اولاد بہت چھوٹی ہیں لیکن ہمیں ناامید نہیں ہونا چاہئے اگر ایک ارشد شریف کو راستہ سے ہٹا دیا گیا تو اور ارشد شریف پیدا ہوتے رہیں گے تم کتنے ارشد شریف مارو گے اب جو بیان آتے رہیں اور حکومت کوششیں کرتی رہے، اسکی تحقیقات کروانے کی جانے والا تو چلا گیا۔ بظاہر تو اسکی شہادت کو ایک اتفاقیہ حادثہ قرار دیا جارہا ہے پولیس کے بیانات آرہے ہیں کہ ایک بچہ اغواء ہوگیا تھا جس کار میں اسکا اغواء ہوا وہ کار ملتی جلتی تھی اس لیے کار پر حملہ کیا گیا کیا اس کار میں کوئی دہشت گرد بیٹھا تھا جس کے پاس اسلحہ تھا اگر واقعی وہ کار اغواء کار کی ہوتی تو اس بچے کے ساتھ سب کو مار دیا جاتا جس طرح ارشد شریف کی کار کو گولیاں ماری گئیں اور ایک گولی سیدھی ارشد شریف کے سر میں لگ گئی۔ ڈرائیور محفوظ رہا اس کو کچھ نہیں ہوا یہ سب اسٹوریاں ہیں ہمارے ملک میں تو اس حادثہ کے بعد تمام صحافی خوفزدہ ہوجائینگے۔ اور کسی میں ہمت نہیں ہوگی کہ وہ حکومت پر کوئی الزم لگائے۔ جبکہ ارشد شریف نے صدر عارف علوی کو ایک خط بھی ارسال کیا تھا جس میں اس اپنے اوپر جعلی مقدمات اور اپنی زندگی کو خطرے سے آگاہ کیا تھا اور بتا دیا تھا کہ میرے بعد ان لوگوں کو بھی نشانہ بنایا جائیگا۔ جن میں عارف بھٹی، سمیع ابراہیم، معید پیرزادہ، عمران ریاض خان، صابر شاکر، صدیق جان کے ساتھ بھی یہی ہوگا۔ انٹرنیشنل میڈیا بتا رہا تھا کہ یہ باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ ہوا ہے۔ اور ہمارا مقدس میڈیا اس کو ایک حادثہ قرار دے رہا ہے۔ بعد میں اسکو تبدیل کیا گیا۔ اب تحقیقات کا مطالبہ کیا جارہا ہے جوڈیشل کمیٹی بنانے کی درخواست کی جارہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کو پاکستان کیوں چھوڑنا پڑا۔ ملک تو چھوڑ دیا پھر حکومت سے بھی کہا گیا اس کو واپس بھیجا جائے ورنہ وہاں سے نکال دیا جائے اس کا بھی کمیشن بنایا جائے نہ تو پاکستان میں رہنے دیا اور نہ ہی دبئی میں رہنا دیا۔ ہمارے ملک میں کوئی محفوظ نہیں ہے۔ جس کی زندگی تنگ کر دی گئی تھی وہ کینیا میں بھی چُھپ کر رہ دیا تھا۔ وہ اپنی صحافتی دنیا کا ایک درخندہ ستارہ تھا وہ ایک ہی تھا جس میں ہمت، جرات، اور حوصلہ تھا جو بھی رپورٹ پیش کرتا تھا پوری سچائی کے ساتھ حکومت پاکستان نے تمغہ امتیاز دیا گیا۔ 27اگست کو محترمہ شیریں مزاری نے بتایا تھا کہ ایک دہشت گرد تنظیم کو ارشد شریف کی سپاری دی گئی تھی اور اس نے خود بھی صدر صاحب کو خط میں لکھا تھا کہ میرے اوپر جعلی مقدمات اور اغواء کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔ زندگی چلتی رہتی ہے اپنے پیاروں کو کھونا کوئی آسان نہیں ہے ارشد صرف ایک جرنلسٹ نہیںتھا وہ ایک بہادر نڈر اور محب وطن ہماری جنگ لڑنے والا جرات مند صحافی جو برسوں سے ڈٹا ہواتھا۔ جو حکومت وقت سے سوال پوچھنے کی جرات رکھتا تھا جو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا تھا۔ وہ مسکراتے ہوئے لوگوں کے چہروں سے نقاب اتارا کرتا تھا۔ وہ پورے ثبوت کے ساتھ تحقیقاتی رپورٹ بناتا تھا وہ ارشد شریف ہم سب کا چہیتا تھا۔
ارشد آپ نے جو شعور دیا صحافت کو عزت وتوقیر دی۔ نوجوانوں کو سوال کرنے کا سلیقہ سکھایا۔ ارشد تم جہاں بھی ہو اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو مقام عطا کیا اپنی جنت میں رکھے وہ بہت بڑی جنگ لڑ رہا تھا اس کی قربانی رائیگاں نہیں جائیگی وہ وطن کی خودمختاری کی جنگ لڑ رہا تھا۔ وہ انصاف اور قانون کی جنگ لڑ رہا تھا۔ جو علامت ہے جرات وبہادری کی۔ ارشد شریف کا مقدمہ ہماری عدالتوں سے تو کچھ نہیں ہوسکتا ،لیاقت علی خان سے لے ک اب تک کتنے لوگ وطن کی خاطر شہید کردیئے گئے ان کا کچھ نہیں ہوا تو یہ ایک غریب سچے صحافی کے لیے سوائے دعا کے ہم کچھ نہیں کرسکتے دعا ہے اللہ تعالیٰ اس کی والدہ بیوی بچوں کو ہمت اور حوصلہ عطا کرے۔ جنازہ میں تو پوری قوم شریک ہوگی۔ چاہے وہ حکومت میں ہوں یا اس سے باہر بہرحال جاتے جاتے وہ ایک سوال چھوڑ گیا ہے اپنی قوم کے لیے کیا حب الوطنی کے ساتھ سچائی پیش کرنا اتنا بڑا جرم ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں انصاف ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭