”عمران دشمنی آخری مرحلے میں داخل ”

0
35

”عمران دشمنی آخری مرحلے میں داخل ”

پاکستانی حکومت اور فوج ، عمران خان کی دشمنی میں آخری سٹیج پر پہنچ چکے ہیں ، حکومت اور فوج نے ایک شخص کی دشمنی اور خوف میں پورے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے ، آئین ، قانون، اصول ، نظریات سب کچھ تباہ کر دیا ہے جس پر پوری عالمی برادری ہنس رہی ہے اور یہ لوگ پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی کا سبب بن رہے ہیں ، پاکستانی حکومت اور فوج کے زیر عتاب عمران خان کو ہمیشہ عدالتوں نے تحفظ دیا ہے ، سپریم کورٹ ہو یا پھر ہائی کورٹس عمران خان نے جب بھی عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے ان کو انصاف ملا ہے لیکن اس مرتبہ حکومت نے کیسوں کی ایسی بھرمار کی ہے کہ ایک ایک کر کے بھی انصاف لینا چاہیں تو اس میں سالوں لگ جائیں گے لیکن اس کے باوجود حکومت اور فوج کے خوف میں کمی نہیں ہوئی اور انھوں نے عدالتوں کا ”مکو” ٹھپنے کے لیے آئینی ترامیم کی چال چلی ہے جس پر دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے 13سیٹوں والی جماعت کے سربراہ کو منانے کیلئے صدر سے وزیراعظم تک سب ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ،صرف آرمی چیف کا مولانا کے گھر آنا باقی ہے باقی تمام ملکی قیادت ان کے ترلے ،منتیں کر چکی ہے جس کا مقصد عمران خان کو ہمیشہ کیلئے سیاست سے آئوٹ کرنا ہے ۔وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی اتحادی جماعتوں پر مشتمل حکومت کو اس آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہوگی تاہم حکمران اتحاد میں شامل ایک عہدیدار کے مطابق اس وقت حکومت کے پاس آئینی ترمیم کو منظور کروانے کے لیے مطلوبہ تعداد پوری نہیں ہے۔کئی روز سے ملک میں یہ چہ میگوئیاں کی جا رہی ہیں کہ حکومت عدالتی اصلاحات کا ارادہ رکھتی ہے۔ ان میں ملک کے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کی تجویز شامل ہے۔دوسری طرف اپوزیشن جماعت تحریک انصاف کے سربراہ بیرسٹر گوہر نے ان اصلاحات کو ‘غیر آئینی ترمیم’ قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ آئینی پیکج کے ذریعے عدلیہ کے اختیارات کو کم کرنے کی کوشش کی بھرپور مذمت کی جائے گی۔ پاکستان کے 1973 کے آئین میں اب تک 25 مرتبہ ترامیم ہوچکی ہیں۔ آئینی ترمیم کے لیے پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے، یعنی قومی اسمبلی میں 224 ووٹ اور سینیٹ میں 64 ووٹ۔اس وقت حکمراں اتحاد میں شامل مختلف سیاسی جماعتوں کے پاس قومی اسمبلی میں 214 ارکان کی حمایت حاصل ہے جبکہ دو تہائی اکثریت کے لیے حکومت کو 10 مزید ووٹ درکار ہیں۔ اطلاعات کے مطابق سینیٹ میں حکومت کو ایک ووٹ کی کمی کا سامنا ہے۔ان نمبروں کو پورا کرنے کے لیے حکمراں اتحاد جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے ملاقاتیں کر رہے ہیں جن کے پاس قومی اسمبلی میں آٹھ اور سینیٹ میں پانچ ارکان ہیں۔آئینی بِل میں تجویز دی گئی ہے کہ آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس کی تقرری وزیراعظم کی سفارش پر صدرِ پاکستان کریں گے۔اس کے بعد مستقبل میں وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی تقرری کے لیے تین ججوں کے نام قومی اسمبلی کی کمیٹی تین سینئر ججوں کے نام چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے سات دن پہلے وزیرِ اعظم بھیجے گی۔ججوں کی تقرری کے لیے بنائی گئی قومی اسمبلی کی کمیٹی آٹھ اراکین پر مشتمل ہوگی۔ کمیٹی کے اراکین کی انتخاب قومی اسمبلی کا سپیکر پارلیمان پارٹی کی سیٹوں کی تعداد کو مدِنظر رکھتے ہوئے کرے گا۔اس کے علاوہ آئینی عدالت کے جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال تجویز کی گئی ہے اور اس عدالت کے جج کی تقرری تین سال کے لیے کی جائے گی۔حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ آئینی عدالت بنانے کا مقصد سائلین کو ریلیف فراہم کرنا ہے۔ججز کی تعیناتی سے متعلق موجودہ سسٹم میں سپریم جوڈیشل کونسل کسی بھی شخص کو ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں بطور جج تعینات کرنے کی منظوری دیتی ہے تو اس کو حتمی منظوری کے لیے اعلیٰ عدالتوں میں تعیناتی سے متعلق قائم کی گئی پارلیمانی کمیٹی کو بھجوا دیا جاتا ہے۔اس کمیٹی کے ارکان سے متعدد بار اس بارے میں تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس ضمن میں ان کا کردار ربڑ سٹمپ کے برابر ہے کیونکہ اگر وہ جوڈیشل کمیشن کی طرف سے بھیجے گئے کسی بھی شخص کے نام پر اعتراض کرتے ہیں تو انھیں تحریری طور پر کمیشن کو اس بارے میں آگاہ کرنا ہوگا اور اس کے ساتھ ثبوت بھی دینا ہوں گے تاہم ان اعتراضات اور ثبوتوں کے بارے میں حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کو ہی کرنا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here