پاکستان میں ایک بار پھر آئینی ترامیم کی کوششیں جاری ہیں اور سب کو معلوم ہے کہ یہ فیصلے عمومی طور پر سیاسی نوعیت کے ہوتے ہیں اور ان کے مقاصد بھی سیاسی ہی ہوتے ہیں نہ کہ ملکی مفاد عامہ میں ان کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔موجودہ دنوں میں جس آئینی ترمیم کی کوشش کی جا رہی ہے اس کے ذریعے عدلیہ کے لامحدود اختیارات کو قابو میں لانا ہے۔یہ سچ ہے کہ پاکستان میں گزشتہ چند سالوں سے عدلیہ اہم معاملات میں پیش پیش رہنے کے ساتھ پارلیمنٹ کے بھی معاملات میں اس قدر دخل اندازی کرتی رہی ہے کہ جس کی وجہ سے پارلیمنٹ کے مکین چاہے وہ نئے ہوں یا پرانے سبھی پریشان نظر اتے تھے۔خصوصا اعلیٰ عدلیہ کا سوموٹو اختیار تو ایک ایسا ہتھیار تھا جس کے ذریعے کبھی کسی وقت بھی سپریم کورٹ کے ججز کسی کو بھی کٹہرے میں لا کھڑا کرتے اور اس کے خلاف اپیل کا حق بھی موجود نہیں۔پارلیمنٹ کے کئی قانون سازیاں بھی سپریم کورٹ میں کالعدم قرار دی گئی ہیں جس کا غصہ بہرحال سیاست دانوں میں موجود ہے مگر کیا ان قانون سازیوں کے ذریعے پاکستان کا نظام بہتر کیا جا سکتا ہے اگر اس آئینی ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کو اس کے لامحدود اختیارات سے محروم کیا جاتا بھی ہے تو اصل بات یہ ہے کہ پاکستان میں طاقتور اسٹیبلشمنٹ کو کس طرح قابو میں لایا جائے کیونکہ وہ انہی حالات کو بروئے کار لاتے ہوئے ہمیشہ سے اپنے مقاصد حاصل کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ہم فرض کر لیتے ہیں کہ موجودہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں اضافہ آئینی ترمیم کے بعد اس وجہ سے ممکن ہوتا ہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھا دی جاتی ہے تو کیا مستقبل میں اسی آئینی اختیار اور سہولت کا فائدہ پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نہیں اٹھائے گی اور ایک ایسے شخص کو چیف جسٹس کے عہدے تک پہنچا دے گی جس کی مدت ملازمت میں کافی وقت رہتا ہو۔ہمارے سیاست دان اس قدر عقل سے بیزار ہیں کہ انہیں معلوم نہیں وہ جس گڑے کو کھودتے ہیں ہمیشہ اس میں خود ہی گرتے ہیںاگر کوئی آئینی ترمیم کرنی ہے تو فوجی اسٹیبلشمنٹ کے بے جا مداخلت کو روکنے کے لیے کرنی چاہئے جس کے سبب پاکستان ہمیشہ سے تنزلی کی جانب بڑھ رہا ہے اور سیاستدان آزادانہ طور پر فیصلے کرنے سے محروم رہتے ہیں۔پاکستان کا ماضی گواہ ہے کہ اگر ان آئینی ترامیم کا ذریعے موجودہ حکمران اتحاد نے کوئی وقتی سیاسی فائدہ حاصل کر بھی لیا تو کل سود سمیت اس اس کی بھرپائی بھی کریں گے۔
٭٭٭