بلوچستان سیاسی شخصیتوں سے محروم

0
118
رمضان رانا
رمضان رانا

ویسے تو پورے پاکستان میں سیاسی شخصیتوں کی قلت پائی جارہی ہے۔جو ہمیں بھٹو، بینظیر بھٹو نوابزاد نصر اللہ خان، سردار شوکت حیات، دولتانہ، میجر اسحاق، مولانا بھاشانی، ولی خان، اجمل خٹک، معراج محمد خان، جی ایم سیدفتحیاب علی خاں اور دوسرے درجنوں سیاسی رہنمائوں کمی محسوس ہوتی رہتی ہے۔جن کی مسلسل جدوجہد سے پاکستان میں آزادی خودمختاری اور جمہوریت کا پرچم لہراتا رہا ہے مگر بلوچستان کی چار سیاسی شخصیتوں میر غوث بخش بزنجو، خیربخش مری،اکبر بگٹی اور عطا اللہ مینگل کی وفات کے بعد بلوچستان سیاسی شخصیتوں سے محروم ہوچکا ہے جن کی غیر موجودگی میں آج ماں، باپ، داد نہ جانے کون کون سے ناموں سے اسٹیبلشمنٹ پارٹیوں کے وجود لائے گئے ہیں کہ جن کی قیادت کو عوام جانتے تک نہیں ہیں کہ بلوچستان کا لیڈر کون ہے چونکہ بلوچستان ہندوستان کی آزادی اور پاکستان کے وجود سے پہلے ایک خودمختار اور آزادانہ علاقہ تصور ہوتا ہے۔جس کی اپنی پارلیمنٹ دارالعلوم تھی جس کے قائد ایوان تو اب اختلاف اور حزب اختلاف کے رہنما غوث بخش بزنجو تھے جنہوں نے اپنی قرار داد کے مطابق کہا تھا کہ بلوچستان ایک آزاد اور خودمختار علاقہ رہے گا اگر اسے کسی مسلم ریاست میں شامل ہونا ہوگا تو وہ افغانستان اور ایران کے ساتھ الحاق کرسکتا ہے۔جس کے ساتھ بلوچ قوم کا کلچر زبان، تہذیب وتمدن ملتا جلتا ہے جبکہ بنگال پنجاب اور سندھ کے ساتھ بلوچ قوم کا تضادات ہیں۔مگر1948ء میں پاکستانی فوج نے بزور بندوق لشکر کشی کے ذریعے بلوچستان کی تمام ریاستوں پر قبضہ کرلیا جس میں بلوچستان کے بگٹی قبائل کے سردار اکبر بگٹی نے قائداعظم کا ساتھ دیا جس کے بعد بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے جسٹس قاضی فائز عیٰسی کے والد محترم قاضی محمد عیٰسی کو بلوچستان کی مسلم لیگ کا صدر نامزد کیا گیا۔اسی لیے آج تک بلوچستان کو مفتومہ علامہ تصور سمجھا جاتا ہے۔جس نے رضا کارانہ طور پر پاکستان کے ساتھ الحاق نہیں کیا تھا جس طرح بھارت نے کشمیر پر بزور طاقت فیصلہ کرلیا تھا۔اسی طرح بلوچستان کے عوام بھی اپنے اوپر لشکر کشی سمجھتے ہیں۔چنانچہ جس کے باوجود بلوچستان کی قیادت میر بخش بزنجو خیبربخش مری، عطاء اللہ مینگل اور اکبر خان بگٹی نے ویسٹ پاکستان اور ٹوٹے پھوٹے پاکستان کے انتخابات میں حصہ لے کر ثابت کیا کہ وہ اب پاکستان کے ساتھ ہیں جس کے باوجود بلوچستان کی قیادت نے شکست اور ریخت شدہ پاکستان کے1973ء کے آئین پر دستخط کرکے ثابت کیا کہ وہ اب پاکستان کو ایک فیڈریشن تسلیم کرتے ہیں۔مگر اسٹیبلشمنٹ نے پھر بھی نیشنل عوامی پارٹی کو بھٹو کے ہاتھوں پابندی عائد کرکے ثابت کیا کہ نارتھ ویسٹ(پختونخواہ)اور بلوچستان کی سیاستی قیادت پاکستان کے غدار ہیں جن پر بغاوت کا مشہور مقدمہ حیدر آباد کیس بنا کر پوری قیادت کو جیل میں ڈال دیا گیا۔وہی اسٹیبلشمنٹ جس نے نیب کی قیادت کو غدار قرار دیا تھا۔اس نے بھٹو کا تختہ الٹنے کے بعد سب سے پہلے نیشنل عوامی پارٹی کی قیادت کورہا کیا۔پوری قیادت پر مقدمہ غداری واپس لیا گیا جس طرح جنرل ایوب خان نے شیخ مجیب الرحمن پر بنایا ہوا مقدمہ غداری اگر تلہ سازش کیس واپس لے کر رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں مدعو کیا تھا بہرکیف مجوزہ بلوچستان قیادت نے جنرل ایوب خان کے ون یونٹ کے خلاف صوبائی خودمختاری کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس کی پاداش میں بھی بغاوت کے مقدمات بنتے رہے ہیں۔جوآخرکار ون یونٹ ختم کرنے میں کامیاب ہوئے جس میں تمام مغربی پاکستان کے صوبوں کو توڑ کر ایک صوبہ مغربی پاکستان بنایا گیا۔چونکہ پاکستان پر برطانوی نامزد گورنر جنرلوں اور فوجی جنرلوں کا قبضہ رہا ہے جنہوں نے پاکستان بنانے والی قیادتوں پر بغاوت کے مقدمات بنائے۔بانی پاکستان قائداعظم محمد جناح مادر ملت فاطمہ جناح اور قائد ملت لیاقت علی خاں کو اور قائداعظم زیڈ اے بھٹو قائد جمہوریت بینظیر بھٹو کو قتل کیا جس کی وجہ سے بلوچستان کے رہنما بھی ملک میں غدار کہلائے جس میں قائداعظم کے ساتھی اکبر بگٹی کو پہاڑ کے نیچے دفن کردیا۔قاضی محمد عیٰسی کے صاحبزادے قاضی فائز عیٰسی کو مہمان وقت رسوا کیا جارہا ہے۔اس لیے موجودہ طاقت ور اداروں سے کسی قسم کی بھلائی کی توقع نہیں رکھی جاسکتی ہے۔جن کی وجہ سے آج بلوبنگال کے بعد بلوچستان میں شدید بے چینی اور کشیدگی پائی جارہی ہے۔جو کسی بھی وقت ملکی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔ظاہر ہے جب بلوچستان میں سیاستدانوں کا فقدان ہو جو ناراض عوام کو متحد کرکے قومی دھارے میں واپس لے سکتے ہوں جنہوں نے1971میں پاکستان کے دستور پر دستخط کرکے پاکستان کی فیڈریشن کو بچایا۔بعدازاں پاکستان میں رہتے ہوئے اپنے آئینی اور قانونی حقوق کا مطالبہ کیاجن کی مسلسل جمہوری جدوجہد اور قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔جن کا نعرہ صوبائی مختاری جنرل ایوب خان کے دور میں لگا تھا وہ آج آئین کی اٹھارویں ترمیم میں پورا ہوچکا ہے۔جس کو رد کرنے کے لیے سازشی اسٹیبلشمنٹ پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام لاگو کرنا چاہتی ہے یہ جانتے ہوئے کہ موجودہ آئین میں پارلیمانی نظام بنیادی اصولوں کا حصہ ہے۔جو صرف اور صرف آئین کو منسوخ کرکے ختم کیا جاسکتا ہے۔جس کے بعد پاکستان کی فیڈریشن کا جود ختم ہو جاتا ہے اس لیے جو جنرلوں اور ان کے حواریوں کو سوچنا ہوگا کہ آج جنرل ایوب خاں، جنرل یحٰیی خان جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کی طرح آئین منسوخ یا معطل کیا جاسکتا ہے۔اگر خدانخواستہ ایسا ہوگا تو پھر پاکستان کئی حصوں میں بٹ جائے گا۔کیونکہ آئین پاکستان کی فیڈریشن کی ضمانت دیتا ہے جس کی غیر موجودگی نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے کسی بھی ملک کا وجود دفاع نہیں رہتا ہے۔بحرحال بلوچستان میں سیاستدانوں کا فقدان پایا جارہا ہے۔بلوچ عوام اپنے اسٹیبلشمنٹ کے سیاستدانوں پر اعتماد نہیں کرتے ہیں۔جوکہ ایک سانحہ کے مترادف ہے شاید اس لیے کہ بلوچستان میں حقیقی قیادت کو آگے نہیں آنے دیا جارہا ہے جو بھی ڈاکٹر عبدالمالک اور اختر مینگل کی طرح سامنے آئے ہیں ان کو عوام کے سامنے بے جانے سے روکا جانا ہے جس سے نہ صرف پاکستان بلکہ بلوچستان کا اتحاد پارہ پارہ ہونا نظر آرہا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here