میری یہ درخواست پاکستان کے طاقتور حلقوں کیلئے ہے اور پاکستان کی عوام کی اکثریت کی طرف سے ہے کہ اس ملک میں فطری جمہوری نظام کو پنپنے کی اجازت دیں کیونکہ جو بھی ٹیسٹ ٹیوب لیڈر پیدا کئے انہوں نے عدم استحکام پیدا کئے ملک کو رسوا کیا افواج پاکستان پر بہتان تراشی کی۔ جس سے نہ صرف بین الاقوامی بدنامی ہوئی بلکہ معاشی طور پر بھی پاکستان کمزور ہوا اور قرضوں کے دلدل میں پھنستے چلے گئے۔ سیاست میں دھونس دھمکی اور بلیک میلنگ کو رائج کیا۔ ملکی حالات اور معمولات کو ایک ہموار راستے پر لانے کا ایک ہی حل ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز مل بیٹھیں اور یہ تمام طبقات اپنی اپنی ذمہ داریوں اور حدود کا تعین کریں۔ سرمایہ دار صنعت کار پر لازم ہے کہ زرعی پیداوار کیلئے زراعت کی صنعت کی ہمت افزائی کریں کیونکہ سب سے اہم پہلو کسی بھی ملک کی سلامتی کیلئے خوراک کی پیداوار ہے۔ پاکستان ایک خوش قسمت ملک ہے جس میں ہر چیز وافرمقدار میں موجود ہے۔ زرخیز زمین ،نہری نظام، دریا، آب رسانی کا نظام محنتی کسان دوسری طرف بدقسمتی سے ہمارا سب سے بڑا مسئلہ بدعنوانی کا کینسر بیماری قومی سرشست میں کافی مدت سے سراعیت کر گیا ہے۔ صنعت ہو یا زراعت، افسر شاہی ہو یا ٹیکس ادائیگی کا نظام ہو یا ترقیاتی منصوبہ ہوں یا سیاست میں عوامی نمائندوں کی خریدوفروخت، دوا سازی میں جعلسازی، سرکاری ہسپتالوں میں ادویات کی چوری سے لیکر مہنگی مشینوں کو ناکارہ کرکے ڈاکٹری جیسے معزز پیشہ میں کام کرنے والوں نے اپنی ذاتی کلینک کے ذریعے نوٹ چھاپنے والی مشینوں کی طرح کام کرنا شروع کردیا۔ پاکستان وہ خوش نصیب ملک ہے جس میں اعلیٰ ترین دماغ موجود ہیں جو اب ملک چھوڑ چھوڑ کر جارہے ہیں چوری اور جرائم ایک طرف بدعنوانی وہ عفریت ہے جو معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ اگر اسی خوبصورت اور وسائل سے مالا مال ملک کو بچانا ہے تو تمام طبقات کو مل کر ایک ایجنڈا بنانا ہوگا جس پر ایک گول میز کانفرنس کی ضرورت ہے اس اجلاس اسٹیک ہولڈرز کے علاوہ ماہرین اور مشاہد دیں کی شراکت بھی ضروری ہے۔ اس اجلاس میں کوئی صدارت نہیں کریگا۔ البتہ سپیکر قومی اسمبلی کو اس اجلاس کے انعقاد اور قوانین مرتب کرنے کے فرائض دیئے جائیں جس میں ہر آدمی کو بولنے کا ٹائم دیا جائے اور اس اجلاس میں قومی حکمت عملی کا دس سالہ منصوبہ بنایا جائے۔ سب سے پہلے اس اجلاس میں مسائل کی نشاندہی کی جائے۔ کیونکہ جب تک مرض کی تشخیص نہیں ہوگی علاج ممکن نہیں پھر غیر متنازعہ مستند ماہرین کو ایک نکتہ پر حل اور اس حد تک پہنچنے کا راستہ یعنی وہ نظام تجویز کرنے کا ٹاسک سونپا جائے۔ ہر مسئلہ پر کم ازکم تین ماہرین اپنی اپنی تجاویز مرتب کریں اور ان پر بھر متعلقہ افراد سوچ و بیچار کے بعد اپنی سفارشات مرتب کریں۔ اس ایجنڈا کو مرتب کرتے ہوئے اہم ترین مسائل کی فہرست اس طرح ترتیب دی جائے کہ مسائل کو فوقیت کے حساب سے فہرست میں شامل کیا جائے۔ اس اجلاس میں عوام کے حقیقی نمائندگان کو بھی شامل کیا جائے جوکہ عوام کے اہم طبقات کی نمائندگی کرتے ہوں ان میں مزدور تنظیمیں کسان تنظیمیں، اساتذہ تنظیمیں، میڈیکل ورکرز(نرسنگ کے پیشے سے تعلق رکھنے والے) ڈاکٹروں کی تنظیمیں، ہر صوبہ کی ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر، میڈیا ہائوس کے نمائندے، صحافی تنظیموں کے نمائندے، وغیرہ وغیرہ ہر موضوع کیلئے سب کمیٹی بنا کر بامعنی اجلاس بھی ہوسکتے ہیں۔ سب سے اہم بات ہے افراد کا چنائو کیونکہ ملک میں سفارش اور اقربا پروری کا مرض میں بھی خطرناک درجہ کو پہنچا ہوا ہے۔ مسائل کی نشاندہی کے بعد اس ساری کاوش کے مقاصد کو بھی فہرست بنانا نہایت ضروری ہے۔ اس بارے کام میں ملکی سطح پراچھی ساکھ رکھنے والی فلاحی تنظیموں کی شراکت بھی ضروری ہے، مقاصد میں مندرجہ بالا جیسی چیزوں کو شامل کیا جاسکتا ہے۔
1۔ خوراک یا غذائی اجناس میں خود کفیل ہونا۔
2۔ مہنگائی قابومیں رکھنے کیلئے اہم اقدامات جس میں آڑھتی کی کردار کو ضابطہ میں رکھنا ایگیولیٹ کرنا۔
3۔ زرعی صنعت کو ترجیحی بنیاد پر ترقی دینا۔
4۔ زرعی مشینری کی پیداوار بڑھانے کے لئے ٹیکس کی چھوٹ۔
5۔ بجلی کی پیداوار میں سستی بجلی کی پیداوار کو ترجیحی بنیاد پر آگے بڑھانا جس میں شمسی توانائی اور ہوا سے بننے والی بجلی شامل ہے۔
6۔ ادویات میں ملاوٹ کے جرم کے خلاف سخت قوانین اور سزائیں تجویز کرنا علیحدہ عدالتیں تجویز کرنا۔
7۔ ٹیکس چوری کیخلاف سخت قوانین اور سزائیں بنانا۔
8۔ سرکاری طور پر فلاحی اداروں کی مدد سے نادار لوگوں کی دیکھ بھال کیلئے ادارے تشکیل دیں جنہیں ایدھی اور چھیپا جیسے ادارے ملکر چلائیں مکمل طور پر ان پر سرکار کی مداخلت سے آزاد ہوں۔
9۔ دیہی علاقوں میں بچوں کے الگ ہسپتال بنائیں۔
10۔ دیہی علاقہ جات میں ترقیاتی کام پر زیادہ ترجیح دی جائے تاکہ شہروں کی طرف نقل مکانی کا رجحان کم ہو اور دیہات ترقی کرینگے تو زرعی صنعت میں ترقی ہوگی ہم ایک زرعی ملک میں ہماری ترقی زرعی پیداوار میں اضافہ سے جڑی ہے۔
٭٭٭٭