امتیاز رانجھا اور میرا تعلق تو ایک ہی شہر منڈی بہاوالدین سے ہے مگر ہمارا تعلق اوورسیز کے فورم پر بنا، چند دن پہلے اوورسیز فورم پر پروگرام ختم ہوا تو ہم پاکستان کی موجودہ صورتحال پر بات کر رہے تھے، خرم رانجھا نے کہا کہ پاکستان میں آزادی اظہار رائے کو انتہائی منفی انداز میں استعمال کیا جاتا ہے، ان کا اشارہ حامد میر کی حالیہ تقریروں کی جانب تھا،ان کا موقف تھا کہ امریکہ میں آپ کسی بھی صورت امریکی فوج کو تنقید کا نشانہ نہیں بناتے، کوئی بھی وردی میں ملبوس سرکاری ملازم ہو، آپ اس کو ہراساں نہیں کر سکتے۔ بلاشبہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں آپ آزادی اظہاررائے کی آڑ میں کسی گروہ یا قومیت، فوج یا پولیس، عام یا خاص کے بارے میں آزادی اظہار رائے کا استعمال بھی ایک خاص حد سے پار نہیں جاتا۔مگر پاکستان کا موازنہ آپ ان ترقی یافتہ ممالک سے فی الحال تو نہیں کر سکتے، پاکستان کا اپنا ایک خاص مزاج ہے، یہ ہمارے نظام کی خرابی ہے یا ہماری اکڑ پن کا نتیجہ کہ کوئی بھی طاقتور اپنے آپ کو اس وقت تک طاقتور نہیں سمجھتا جب تک وہ کسی اور ادارے یا شخص کے ساتھ اپنی طاقت کا اظہار نہ کرے۔کئی دہائیوں سے ہم پاکستان میں یہی سنتے آرہے ہیں کہ پارلیمنٹ طاقتور ہے، عدلیہ کہتی ہے ہم طاقتور ہیں، فوج اور اسٹیبلشمنٹ کہتی ہے ہم سے بڑا کوئی طاقتور نہیں۔چلیں یہ تو بہت اوپر کی بات ہوگی، آپ نچلی سطح پر آجائیں تو سپرمارکیٹ ایف سکس کے تاجر سمجھتے ہیں کہ وہ جناح سپر ایف سیون کے تاجروں سے،مرسڈیز والا سمجھتا ہے کہ وہ ٹیوٹا کرولا والے سے، دوکاندار سمجھتا ہے کہ وہ باہر چھابڑی لگائے ہوئے آدمی سے، ایم ڈی سمجھتا ہے کہ وہ کلرک سے، باٹا سروس کے جوتے پہنے والا سمجھتا ہے کہ وہ چینی جوتے پہننے والے سے، چکن یا مٹن سے روٹی کھانے والا سمجھتا ہے کہ وہ دال کھانے والے سے زیادہ طاقتور ہے۔ بات سمجھنے کی حد تک رہتی تو شاید اتنے تنازعات جنم نہ لیتے مگر کیا کریں ہمیں اپنی طاقت کا اظہار بھی کرنا ہے، جب تک ہم اپنے طاقت کے ڈنڈے سے کسی کمزور کا سر نہ پھاڑ لیں، ہمارے طاقت وری کے جانور کو تسکین نہیں ملتی۔مدتوں سے پاکستان میں یہی چلا آ رہا ہے، طاقت کے وہم میں مبتلا ادارے اور افراد ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے ہیں، پاکستان میں حالیہ دنوں میں میڈیا،حکومت اور فوج کے درمیان سجا ہوا میدان انہیں پہلوانوں کے اس ذہنی وہم کی وجہ سے ہے۔یہ جنگ کسی ایک کو وقتی طور پر طاقتور تسلیم کر لینے کے بعد رک تو جائے گی مگر ختم نہیں ہوگی۔میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ان طاقتوروں کی چال بازیوں کا اثر ہمارے قانون و انصاف کے نظام میں بھی پوری طرح موجود ہے، یہ نظام ایک کمزور کے سامنے تو چوہدری اللہ دتہ مگر طاقتور کے سامنے جاکر گاما مراثی بن جاتا ہے۔امتیاز بھائی امریکہ میں نظام سب کا باپ ہے، آپ کسی بھی عہدے یا کسی بھی ادارے میں کام کرتے ہیں مگر باپ کے سامنے سب ایک جیسے ہیں، یہاں فوج نے بھی کبھی غلطی سے بھی کسی عام آدمی کو سڑک پر سے چلتے ہوئے اُٹھا کر افغانستان کے حوالے نہیں کیا، یہاں عدلیہ نے بھی کبھی نہیں سوچا کے مقدمات کو کس طرح پسند ناپسند کی بنیاد پر نمٹایا جائے، یہاں حکومت کو کوئی کتنا بھی ناپسند ہو مگر اس کے خلاف جھوٹا مقدمہ نہیں بنا سکتے، غرض یہاں سب کا باپ نظام اور پاکستان میں نظام کے کئی باپ ہیں۔
٭٭٭