میرا بچپن سے ایک شوق اخبار پڑھنا رہا ہے ، کراچی میں لائبریری میں جا کر ہر روز تمام مقامی اور بیرونی اخبار پڑھنا میرا بہترین مشغلہ تھا، امریکہ آنے کے بعدبھی اللہ تعالیٰ نے اخباری دنیاسے یہی واسطہ رکھا،نیویارک ٹائمز، دہلی نیوز اور پھر 17سال نیوز ڈے میں کام کیا، تو ہرروز اخبار سے یہی واسطہ رہتا پھر 1995میں ”پاکستان نیوز”کیلئے مجھے ہرروز دنیا بھر کے اخبارات پڑھنے پڑتے ہیں اور پھر اپنے اخبار کے لیے کچھ خبریں نکالنا پڑتی ہیں، اخباری مشاہدہ سے اندازا لگانا آسان ہوتا ہے کہ ماضی کے پاکستانی سیاسی رہنمائوں کا کیا انداز بیان ہوا کرتا تھا، اور آج کے سیاسی رہنمائوں کا کیا انداز بیان ہے، فرق صرف نسلی یا بے نسلی سیاستدانوں کا ہے ، پہلے کے چودھری، سردار، خانزادے یا سرمایہ دار بڑی مروت والے ہوتے تھے ، اصول ہوا کرتے تھے اور اپنے اصول پر ڈٹ جانا نسلی پن ہوتا تھا، جبکہ آج کا سیاستدان بے نسلی ہے ، آج کا سیاستدان ڈالرز اور روپوں میں تولہ جاتا ہے ، اس کا کوئی اصول نہیں ہوتا جیسا کہ گزشتہ دنوں پیپلزپارٹی کے سربراہ زرداری نے تماشہ کیا، میں ،میرے خاندان کا ماضی پیپلزپارٹی سے وابستہ تھااور کچھ کا ابھی بھی ہے، پہلے اصولوں پر جان دی جاتی تھی، آج ڈالرز اور روپوں پر جان دی جاتی ہے ، پوری کی پوری پارٹی کے لوگ زیادہ پیسوں کی جانب منہ موڑ لیتے ہیں، اس طرح لینے والے اور دینے والے دونوں ”بے نسلی”ہیں، ہمارا کلچر جس پر ہمیں فخر ہوتا تھا، اب اختتام پذیر ہے، بھٹو خاندان نسلی تھا، زرداری خاندان بے نسلی ہے اور اس نے پہچان بھی بے نسلی کرائی ہے، بیمینوںسینما کے سامنے شام کو بلیک میں ٹکٹ فروخت کرنے والا زرداری کا آج بھی وہی ذہن ہے ، اسی بلیک میلر نے پورا ملک برباد کر دیا ہے ، پورے کراچی بلکہ پورے سندھ کو برباد کر دیا ہے ، جگہ جگہ کچرا، بدبوسے شہر بھرا پڑا ہے ، سندھ بھر میں غریب لوگ اور جانور ایک ہی گھاٹ کا پانی پیتے ہیںاور مرجاتے ہیں، اب زردار ی نے اپنا بلیک منی کا دائرہ پنجاب تک بڑھا دیا ہے ، آج پاکستان بھر میں لحاظ و اکرام کا دور ختم ہو گیا ہے ،کرائم بڑھ گئے ہیں، بزنس طبقہ پاکستان سے بھاگ رہا ہے ، غریب طبقہ پس چکا ہے ، گھر گھر وارداتیں ہو رہی ہیں، نوجوان تعلیم حاصل کرنے کے بعد پستول خریدنا بہتر سمجھتا ہے کیونکہ اسے نوکری کی اُمید نہیں ہوتی، پستول خرید کر وہ ہر روز جتنا کما لیتا ہے ، وہ کام کرکے نہیں بنا سکتا، علماء اکرام میں دین کا جذبہ کم دنیاوی لین دین کا رجحان زیادہ ہے، فوج تماشائی بنی بیٹھی ہے کہ ہمارا اس سے کیا تعلق ہے ، کھائو ، پیواور موج کرو، پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین موڑ پر پہنچ چکا ہے ، تمام سیاستدان اندھے ، بہرے ہو چکے ہیں ، انہیں صرف پیسوں کی لالچ ہے ، ملک کی یا عوام کی کسی کو کوئی پراہ نہیں ہے ، آج نسلی ،خاندانی سیاستدان ، نسلی بزنس مین یا تو ختم ہوتا جا رہا ہے یا پاکستان سے بھاگ چکا ہے ، ہر پاکستانی سے دعا کی التماس ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور پاکستانی عوام کی سلامتی و بہتری کیلئے ہاتھ بلند کریں، دعا کریں شاید کسی کی دعا سے حالات بہتر ہو جائیں، دوسری کوئی صورت نظر نہیں آتی، جن لوگوں نے پاکستان کے حالات بہتر کرنے ہیں وہ سیاسی تماشا بن چکے ہیں ، ہر تیسرے روز پنجاب کا وزیراعلیٰ اپنے عہدے کا حلف اُٹھانے پر مجبور ہے ، پاکستانی سیاست آج اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ وزیراعلیٰ کا انتخاب سپریم کورٹ کی جانب سے کیا جا رہا ہے جبکہ عدالت یہ بھی حکم دیتی ہے کہ کون کتنے بجے حلف اٹھائے گا اور کون کس سے حلف لے گا ، آپس کی بے اتفاقی اور اختلافات کی وجہ سے سیاستدان اپنے فیصلے عوامی رائے سے کرانے کی بجائے عدالت کے ججوں سے کروا رہے ہیں ، اور پھر حیران کن بات یہ ہے کہ یہی سیاسی گماشتے اپنے مفادات کیلئے سیاسی فیصلے ججوں کی جھولیوں میں ڈالتے ہیں اور پھر ان ہی فیصلوں پر واویلا بھی کرتے ہیں کہ جمہوری فیصلے جمہوری لوگوں کو ہی کرنے چاہئیں اگر ایسی بات ہے تو جمہوری لوگ آپس میں بیٹھ کر فیصلہ کریں، اپنے فیصلے خود عدلیہ کے سپرد کر کے پھر ججوں کو بُرا بھلا کہنے کا کیا مقصد ہے ۔گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر سپریم کورٹ نے حمزہ شہباز کا وزیراعلیٰ کا الیکشن کالعدم قرار دے کر چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب مقرر کر دیا، اپنے فیصلے میں تین رکنی ججز پینل نے یہ بھی تحریر کیا کہ پرویز الٰہی اُسی رات اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے ، اگر گورنر حلف کیلئے دستیاب نہ ہوتو صدر مملکت یہ ذمہ داری ادا کریں، جس کے بعد پرویز الٰہی خاندانی بغاوت کے باوجود وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہو گئے ہیں، اس وقت ملک کو پرانی سیاسی اقدار کی ضرورت ہے ،تاکہ عوام کو جمہوریت پر اعتماد بحال رکھا جا سکے، ایک دوسرے کو تسلیم کر کے ہی مضبوط جمہوریت کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔
٭٭٭