سندھ کی عوام کو دیوار سے مت لگائیں!!!

0
108
پیر مکرم الحق

سندھ کی عوام کو اپنے منتخب کردہ نمائندگان سے بھی شکایات ہیںلیکن گمشدہ افرادکی طویل تر ہوتی ہوئی فہرستوں نے سندھ میں بلوچستان کی طرح ایک بیزاری اور مایوسی کی فضا پیدا کی ہے اور یہ بیزاری اور مایوسی وفاق اور وفاقی اداروں سے ہے یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ سندھ کی عوام سندھ حکومت سے کوئی زیادہ خوش ہیںلیکن حال ہی میں ہونے والے واقعات جس میں بحریہ ٹائون نے کراچی میں واقعہ پرانے گائوں جو کئی صدیوں سے موجود ہیںان کو مسمار کرنے والے واقعہ نے بے بسی کا جو احساس سندھ میں پیدا کیا اس کی ایک بڑی وجہ ایک طاقتور وفاقی ادارے کی طرح سے بحریہ ٹائون کے بدنام زمانہ مالک کی کھلم کھلا پشت پناہی تھی۔کچھ سندھ حکومت نے بھی ایسے واقعات کا ملبہ وفاق اور اس کے مقتدر اداروں کی عادت بنا لی ہے جس سے سندھ میں احساس محرومی پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو اور ان کی جماعت کا پاکستان پر ایک بڑا احسان یہ تھا کہ انکی موثر قیادت اور سیاسی حکمت عملی نے تنگ نظر سندھی قوم پرستی کو کبھی بھی سندھ کی قیادت نہیں حاصل کرنے دی۔پاکستان پیپلزپارٹی نے ہمیشہ وفاق کی حدود میں رہتے ہوئے سندھ کے مسائل کو اُجاگر کیا اب بدقسمتی سے پی پی پی پنجاب میں اپنا اثرورسوخ تقریباً کھو چکی ہے۔باقی صوبوں نے بھی پنجاب کی تقلید کرتے ہوئے علاقائی یا کم ازکم ایسی جماعتوں کی حمایت کرنا شروع کردی ہے جن کی قیادت یا مرکزی قیادت اسی صوبے سے ہے۔دوسری طرف پی پی پی اپنی نااہلی کو چھپانے کیلئے اب سندھ کے مسائل خصوصاً پانی کی تقسیم پر سندھی قوم پرست جماعتوں کی طرح کا موقف اور بیانیہ اپنا رہی ہے۔ورنہ جماعت کو اندیشہ ہے کہ اگر سندھی قوم پرست جماعتوں نے ان سے زیادہ سخت موقف اختیار کیا تو انکی جماعت کی مقبولیت میں کمی آنے کا اندیشہ ہوگا۔طاقتور حلقوں کو پنجاب سے پی پی پی کو نکالنے کیلئے کوئی زیادہ محنت اس لئے نہیں کرنی پڑی کیونکہ پی پی پی نے پنجاب کے پارٹی معاملات کی نظر داری کی اہم ذمہ داری زرداری صاحب کے حوالے کردی تھی جو پنجاب کی پارٹی مسائل سے نابلد تھیں اور ناہید خان کو تو پہلے ہی ایک طرح کر دیا گیا تھا جن کا بھی رویہ پارٹی کارکنوں اور رہنمائوں سے کوئی زیادہ اچھا نہیں تھا لیکن وہ یہ ضرور سمجھیں تھیں کہ پنجاب میں کن شخصیات اور خاندانوں کی کیا اہمیت ہے ، ایک غیر سیاسی خاندان کے ہاتھ میں ملک کی سب سے بڑی جماعت کی باگ ڈور آگئی۔پارٹی کارکنان کو بلاول سے بڑی توقعات وابستہ تھیں لیکن انہوں نے بھی محسوس کر لیا ہے کہ والد اور پھپھو کے حاوی رہنے کی وجہ سے بلاول کی اصل شخصیت مسخ ہو کر رہ گئی ہے۔ورنہ وہ ایک قابل اور کہن مشق سیاست دان بننے کے تمام لوازمات اور صلاحیتیں رکھتے ہیں۔راقم نے ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بینظیر بھٹو اور آصف زرداری تینوں کو قریب سے دیکھا بھی ہے اور انکے طریقہ کار کا مطالعہ بھی کیا۔بھٹو صاحب تو ایک بلا کے ذہین سیاستدان تھے اور عوام کے مسائل پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی رہنما بھی تھے جو عوام سے انکی اپنی زبان میں بات کرتے تھے۔اس لئے کہ ان میں یہ اہلیت تھی کہ لاکھوں کے مجمعے کو ساتھ لے کر چلتے تھے اور عوام انکی ہر بات کو صدق دل سے نہ صرف تسلیم کرتے تھے بلکہ ان پر مکمل یقین رکھتے تھے۔محترم کی ذہانت بھی مثالی تھی لیکن باوجود ایک خاتون ہونے کے انکی قربانیوں نے ایک مثال پیدا کی اور عوام میں قربانی کا ولولہ پیدا کیا۔سکھر کی جیل سے لیکر شوہر کے خلاف مقدمات کی بھاگ دوڑ چھوٹے معصوم بچوں کو گود میں اٹھائے جیلوں اور عدالتوں کے چکر لگاتی ہوئی ہے۔
نوجوان عورت جو آہنی ارادے اور عزم بھی رکھتی تھی انکے اس اندازے عوام کے دلوں میں ایک نہ مٹنے والا نشان چھوڑ دیا اور پھر جب ایک سازش کے ذریعے انہیں دن دیہاڑے لیاقت باغ میں شہید کر دیاگیا۔اس منظر نے وہ نقش چھوڑا جو جمہوریت میں یقین رکھنے والے کسی انسان کے لئے بھولنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔لیاقت علی خان کی شہادت پھر ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کا جائے وقوع اور پھر بینظیر بھٹو کی شہادت جس طرح ایک ہی سلسلے کی کڑی ہے۔اسی طرح وہ مقام بھی ایک مقام شہادت بن گیا۔لیاقت باغ اب جمہوریت کیلئے دی جانے والی قربانیوں کی یادگار بن گیا ہے۔
بلاول بھٹو کیلئے اب بھی موقعہ ہے کہ وہ اپنی والدہ اور نانا کے راستے پر چل کر عوام کے دلوں میں ایک اعلیٰ مقام حاصل کریں۔یا پھر اپنے ددھیال کے قبائلی سرداروں والا رویہ اپنا کر اپنی جماعت اور سیاسی مستقبل کو دائو پر لگا دیں۔سندھ کی عوام ایک اعلیٰ ترین سیاسی شعور رکھنے والی عوام ہے۔وہ اب تک ذوالفقار علی بھٹو کے ممبر میں گرفتار ہیںاور محترم کی قربانیوں کے احسان سے مغلوب ہیںلیکن خدادار انکے صبر اور واگزر کو نہ آزمائیں آخر ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here