بھارت کی عالمی میڈیا کو فنڈنگ!!!

0
168
شمیم سیّد
شمیم سیّد

عالمی میڈیا اداروں نے اس خطے میں ایک ایسا انگریزی پسند طبقہ پیدا کیا ہے جو اپنے باہر کے خوف سے اپنے خول میں زندگی گزارتا ہے۔ یہ عالمی میڈیا کی کامیابی اور مقامی معاشروں کی ناکامی ہے۔میں خود ہمیشہ فاکس نیوز دیکھتا آیا ہوں۔ کچھ سال پہلے پاکستان میں اس چینل کی نشریات بند ہو گئی تھیں، شاید اس کی بھی وہی وجوہات تھیں جو دیگر میڈیا اداروں کو بند کرتے وقت دی جاتی ہیں۔مگر فاکس نیوز دیکھنا ایک طرح کا “عیب” سمجھا جاتا ہے، جبکہ سی این این اور بی بی سی سے چمٹے رہنا پاکستان اور بھارت میں بڑے فخر کی بات سمجھا جاتا ہے۔بات یہ ہے کہ سی این این اور بی بی سی جیسے مگر معاشرے کی ڈیجیٹل شکل نے ان اقدامات کو بے معنی بنا دیا ہے سی این این اس کے برعکس عالمی ناظرین کے لیے مخصوص ایجنڈے کے تحت مواد نشر کرتا ہے، خاص طور پر ہمارے پاکستانی اور بھارتی ناظرین کے لیے۔اسی تناظر میں، امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے یکم مئی کو فاکس نیوز کے پروگرام میں گفتگو کی کہ ہم پہلے ہی بھارت اور پاکستان کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں۔ ہماری امید ہے کہ بھارت ایسا ردعمل نہ دے جو خطے میں تنازعہ کو جنم دے۔ ہم یہ بھی امید کرتے ہیں کہ پاکستان، اگر کسی حد تک ذمہ دار ہے، تو بھارت کے ساتھ تعاون کرے تاکہ ان دہشتگردوں کو جو (مبینہ طور پہ ) اس کی سرزمین سے کام کرتے ہیں، تلاش کر کے سزا دی جا سکے ایک بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ ان سیاحوں کی ایسی بے رحمانہ موت کبھی بھی بھلائی یا معاف نہیں کی جا سکتی۔ تحقیقات کے دوران تقریبا 3000 افراد کو حراست میں لیا گیا، جن میں سے 150 ابھی بھی زیر حراست ہیں۔بھارتی وزارت خارجہ یا کسی بھی عالمی رہنما نے ابتدائی طور پر تعزیتی پیغام میں پاکستان کا نام نہیں لیا۔لیکن قومی و بین الاقوامی میڈیا نے پاکستان کے خلاف بیانیہ بنانے کی کوشش کی۔ میڈیا پر بیانیہ بنانا بھی سفارت کاری کی ایک قسم کی ہے۔ بھارت کی وزارت خارجہ کو محض 0.03 فیصد جی ڈی پی فنڈز دیے جاتے ہیں، اور اس کے پاس دنیا بھر میں اپنی مشن چلانے کے لیے ایک ہزار سے کم سفارتکار ہیں۔ تقسیم کے بعد پہلے عشرے میں نہرو کے ماتحت بھارتی وزارت خارجہ نے غیر جانبداری کی پالیسی اختیار کی، جس کی بدولت بھارت نے عالمی سطح پر اہم مقام حاصل کیا۔ ہر عالمی رہنما ایک پرامن دارالحکومت میں اترنا چاہتا ہے، نہ کہ تنازعے یا بدامنی میں۔لیکن 2014 سے اب تک مودی کی دہائی میں حالات بدل گئے ہیں۔ اس دہائی میں بھارت نے معاشی ترقی کی، اس میں شک نہیں۔ اسی دہائی میں مشرق وسطی کے ممالک، خاص طور پر سعودی عرب نے اپنے ترقیاتی ویژنز پر کام کیا اور کامیاب بھی ہوئے۔فرق یہ ہے کہ مشرق وسطی کے ممالک نے اپنے شدت پسند ماضی کو چھوڑ کر ترقی کو گلے لگایا، جبکہ مودی نے بھارت کو اس کے پرامن ماضی سے توڑ کر ترقی کے نام پہ غربت اور امارت کے درمیان نہ ختم ہونے والی خلیج میں دھکیل دیا۔ مودی دبئی کے دلدادہ ہیں، اور زیادہ تر وہیں جاتے ہیں، سعودی عرب کو نظر انداز کرتے ہیں۔ اس دہائی میں وہ تین بار سعودی عرب گئے اور ہر بار ان کے دورے کے ساتھ کوئی دہشتگردی کا واقعہ پیش آیا: پہلگام، پلوامہ یا پٹھان کوٹ۔ آئندہ دورے پر جانے سے پہلے انہیں محتاط رہنا ہو گا۔اسی طرح، انہوں نے بیرون ملک مقیم بھارتیوں پر انحصار کیا کہ وہ سفارت کاری کریں اور بیانیہ بنائیں۔ اس کے نتیجے میں لاکھوں جعلی سوشل میڈیا اکاونٹس اور ویب سائٹس پاکستان مخالف پروپیگنڈا پھیلانے کے لیے بنائی گئیں، جنہیں یورپی ماہرین نے بے نقاب کیا۔اس کے برعکس، امریکہ میں مقیم پاکستانی ٹرمپ انتظامیہ سے عمران خان کو اڈیالہ جیل سے رہا کروانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ امریکی انتخابات میں پاکستانیوں اور مسلمانوں نے ٹرمپ کی حمایت کی، جبکہ بھارتیوں نے ان کی حریف بھارتی نژاد امیدوار کمالہ ہیرس کی تھی۔اسی وجہ سے پاکستانی کمیونٹی تنظیموں کو امریکی قانون سازوں تک رسائی حاصل ہے، لیکن وہ ان سے صرف ٹرمپ کو اپنے مطالبات بارے خطوط لکھوانے یا سینیٹ میں پاکستان سے متعلق بل منظور کروانے تک محدود ہیں۔ میں نے امریکہ میں موجود دوستوں سے اس حوالے سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان سے محبت کرتے ہیں مگر وہ سول بالادستی کے خواہشمند ہیں۔درحقیقت، ہر پاکستانی سول بالادستی چاہتا ہے۔ اس پر دو رائے نہیں۔ مگر اب یہ خواہش ایک خواب بنتی جا رہی ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہم سول بالادستی حاصل نہیں کر سکے۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ پہلگام حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت موجود نہیں، اور اس سچ کو کسی ایجنڈے کی نظر نہیں کرنا چاہیے۔ بھارت بے بنیاد الزامات لگا کر پاکستان کو بدنام کرتا ہے، جبکہ خود دہشتگرد تنظیموں کی مالی معاونت کرتا ہے اور کینیڈا اور امریکہ میں سکھ رہنمائوں کے قتل کی سازش کرتا رہا ہے۔”وزیراعظم کے واشنگٹن میں سفارتی معاون طارق فاطمی نے واقعی یہ ممکن بنا دیا ہے۔ انہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ بھارتی نژاد بیوی کے شوہر اور امریکہ کے نائب صدر کے ڈی وینس نے فاکس نیوز پر جنگی جنون کے خلاف بیان دیا۔ امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی کو سچ کا ساتھ دینا ہو گا، کیونکہ سچ ہی انہیں آزادی دلائے گا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here