یہاں ہم اپنا زمانہ بنانے آئے ہیں !!!

0
39

نام نہاد ترقی یافتہ ممالک نے جس طرح صنعتی ترقی کے نام پر پوری دنیا کی آب و ہوا کو زہر آلود کردیا ہے، اس کے منفی اثرات اب پورے کرہ ارض پر ایک ایسا فساد برپا کر رہے ہیں کہ جس پر قابو پانا ممکن نظر نہیں آرہا۔ ساری دنیا کی طرح، ہمارا پیارا ملک پاکستان بھی ناگہانی آفتوں کی زد میں ہے۔ سیلاب اور خشک سالی جیسی آفات نے غریب عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ قرآن مجید کی سور الروم کی آیت میں اللہ رب العالمین فرماتے ہیں۔ خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ مزہ چکھائے انکو ان کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آجائیں۔ کرہ ارض کی موجودہ صورتحال دیکھ کر، بہت سارے لوگ بڑے پریشان ہیں۔ غزہ پر مظالم کی انتہا، شام و سوڈان کا انتشار، روس و یوکرین کے درمیان جنگ اور کشمیر کی ریاست پر قبضہ تو ایک طرف ہے ہی، افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کی ریاستیں بھی عدمِ استحکام کا شکار ہیں جبکہ بھارت کی ہندتوا، اپنی اقلیتوں اور پڑوسیوں کیلئے ایک عذاب سے کم نہیں۔ برما، تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے دگرگوں حالات نے جہاں وہاں کے عوام کو پریشان کیا ہوا ہے، وہیں افریقہ کی بڑھتی ہوئی غربت بھی کسی بڑی مصیبت سے کم نہیں۔ اس سب پر طرہ یہ کہ ورلڈ آرڈر برقرار رکھنے والے مغربی ممالک، انتہا درجے کی کم ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، دنیا کی بے چینی میں اضافہ کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ اس ساری غیر یقینی اور تشویشناک صورتحال کے اگر کسی حل کی نشاندہی ہوتی ہے تو وہ الہامی ہدایت نامہ قرآن مجید ہے۔ دنیا کے اردو دان طبقہ پر مولانا مودودی کا یہ ایک بہت بڑا احسانِ عظیم ہے کہ انہوں نے کتابِ ہدایت کی سلیس اردو میں تفسیر تفہیم القران شائع کی۔ بے چینی سے بھرپور دنیا میں جب بھی تفہیم کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو مایوسی کے بادل چھٹ جاتے ہیں اور قاری پر دنیا کی اصل حقیقت آشکار ہوجاتی ہے اور باطل کے خلاف ہمت و جرت میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے۔ راجیش ریڈی نے کیا خوب کہاہے کہ!
بنے بنائے زمانے کے ہم نہیں قائل
یہاں ہم اپنا زمانہ بنانے آئے ہیں
اپنا زمانہ ویسے تو بنتے بنتے ہی بنتا ہے لیکن لوگ کم از کم کسی مقدس مقصد کے حصول کیلئے یکسو ہوکر جدوجہد تو شروع کر دیتے ہیں۔ بلاشبہ انقلاب کی جدوجہد کوئی آسان کام نہیں مگر قرآن و سنت کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے تسلسل برقرار رکھا جائے تو مثبت تبدیلی ممکن ہو جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دریا کے بہا کے خلاف تیرنے میں بے حد مشکلات پیش آتی ہیں اور بے انتہا توانائیاں بھی صرف ہوتی ہیں لیکن یہ بھی طے ہے کہ قربانی دئیے بغیر کچھ حاصل کرنا تقریبا ناممکن ہے۔ اس جدوجہد کیلئے انفرادی کوششوں کے ساتھ ساتھ اجتماعیت کی ضرورت رہتی ہے۔ اس لئے لازم ہے کہ سب لوگ کسی نہ کسی بامقصد اجتماعیت کا حصہ بنیں۔ نیا زمانہ تخلیق کرنے میں بدر و حنین بھی آتے ہیں اور کربلا کے میدانوں سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ ثابت قدمی اور صبر کی خصوصیات ہی انسان کو بہت سے سنگ میلوں سے گزار سکتی ہیں۔ راجیش ریڈی کا یہ شعر بھی یہی حقیقت بیان کر رہا ہے۔
بجھ کے بھی جن کی یہاں روشنی رہ جاتی ہے
ان چراغوں کو ہوا دیکھتی رہ جاتی ہے
ان حالات کو دیکھتے ہوئے، نئے زمانے بنانے کا عمل مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ پاسپورٹ اور ویزے کی خود ساختہ پابندیوں نے عام انسانوں کی زندگیاں مزید تلخ کر دی ہیں۔ اللہ تعالی کی پاک ذات نے تو ہر ذی روح کیلئے ضروری وسائل فراہم کر دئیے ہیں لیکن یہ حضرتِ انسان بجائے الہامی ہدایات پر عمل کرنے کے، اپنے خود ساختہ قوانین نافذ کرنا چاہتا ہے۔ نتیجہ وہی ہے جو سور الروم میں بیان کیا گیا ہے کہ خشکی اور تری میں فساد برپا ہے۔ اناج سمندروں کی نذر ہورہا ہے اور عام لوگ قحط سالی کا شکار ہیں۔ فیض احمد فیض بھی اس فساد بر و بحر کے خاتمے اور نئے زمانے کیلئے اشعار کہا کرتے تھے۔
کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسرہوگی
سنتے تھے وہ آئیں گے سنتے تھے سحر ہو گی
کب جان لہو ہو گی کب اشک گہر ہو گا
کس دن تری شنوائی اے دید ِ تر ہو گی
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here