حملہ ہوگیا، حملہ ہوگیا، حملہ ہوگیا۔ اِس کی چیخ کراچی کے علاقے ملیر میں گونج اُٹھی، ہر شخص اپنے پڑوسی کے دروازے پر دستک دے کر اُسے یہی پیغام دے رہا تھا کہ حملہ ہوگیا لیکن رضوان نقش بندی کو لوگوں کو سمجھانے میں بڑی دقت ہورہی تھی، اُنہوں نے غصے میں یہ کہنا شروع کردیا کہ آخر یہ کراچی والے اتنے احمق کیوں ہوگئے ہیں ، میں یہ سمجھانے کی کوشش کر رہاہوں لیکن وہ سمجھنے کا نام ہی نہیں لیتے ہیں، میں یہ کہہ رہا تھا کہ ایک شخص رات کے اندھیرے میں کرکٹ میدان کے درمیان سے گزر رہا تھا ، کئی کتے بھونکتے ہوئے اُس کا پیچھا کرنے لگے، اور پھر اُس پر حملہ آور ہوگئے ، یہ منظر دیکھتے ہی ایک شخص نے چیخ لگائی کہ بچاؤ ، بچاؤ حملہ ہوگیااور پھر سارا محلہ حملہ ہوگیا ، حملہ ہوگیا کا نعرہ لگانے لگا۔
رضوان نقش بندی کے پڑوسی نے اُن سے جرح شروع کردی اور پوچھا کہ اُن کتوں کی قومیت کیا تھی، رضوان صاحب نے غصے میں جواب دیا کہ اُنہیں کیا پتا اُن کی قومیت کیا تھی. وہ کتے دیسی تھے،محلے کے کئی لوگوں کو پہلے بھی کاٹ چکے تھے ، محلے والوں نے اُن کتوں کے خلاف اپنے کونسلر کو شکایت بھی لگائی تھی اور ہر الیکشن سے قبل کونسلر اُن کے پاس آکر یہ یقین دہانی کراتے تھے کہ وہ اُنہیں اِن کتوں سے چھٹکارا دلا دینگے لیکن بعد از الیکشن کونسلر کا چہرا دیکھنا ایک معجزہ ہوتا تھا، ایک شخص نے بتایا تھا کہ کتوں نے کونسلر کو بھی کاٹ لیا تھا، اور جس کی وجہ کر کونسلر محلے داروں سے کتوں کی طرح بھونک بھونک کر باتیں کیا کرتے تھے، کونسلر کو محلے داروں سے شکایت یہ تھی کہ کتوں سے اُنہیں چھٹکارا دلانے کی ذمہ داری اُنکی نہیں تھی این جی او والوں نے کونسلر کو یہ تنبیہہ کی تھی کہ وہ کتوں کو ہلاک کرنے کے بارے میں کبھی سوچیں بھی نہ ، ورنہ وہ اُنہیں اندر کروادینگے ، اِسلئے کتوں کا رضوان نقش بندی کے محلے پر قبضہ ہوگیا تھا . جب اُن کا پیٹ بھرا ہوتا تو وہ آرام سے سوتے تھے، جب وہ بھوکے ہوتے تو بھونکتے تھے یا کاٹتے تھے،رضوان نقش بندی صاحب !میں عرض یہ کررہا تھا کہ” کہیں بھارتی فوج کے سپاہی کتوں کا بھیس بدل کر حملہ آور تو نہیں ہوگئے تھے، اُنہیں بھیس بدلنے میں مہارت حاصل ہے،مرد عورت کا بھیس بدل کر گھروں میں چوری کی واردات کرتے ہیں ، اور گھروں میں داخل ہوکر ڈاکہ ڈالتے ہیں” اجنبی شخص نے کہا،” نہیں نہیں ایسا نہیں ہوسکتا ہے. بھارتی فوج کے سپاہیوں کے کان چھیدے ہوتے ہیں اُن کے بھونکنے کی آواز بھی سریلی ہوتی ہے. یہی تو اُن کی خاصیت ہوتی ہے ، جب دِل چاہا تو سریلی آواز نکال کر لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی، اور جب چاہا بھونکنے لگے ، اور لوگوں کو کاٹنا شروع کردیا. رضوان نقش بندی صاحب نے جواب دیا۔” ٹھیک ہے تو چلتے ہیں ، اُس شخص کی مزاج پُرسی کرتے ہیں جسے کتے نے کاٹا ہے. بیچارا زخمی حالت میں میدان میں پڑا ہوگا، اُسے ہسپتال لے کر چلتے ہیں” اجنبی شحض نے کہا ” نہیں جی میں نہیں جاتا مجھے کتوں سے بہت خوف آتا ہے۔ ””نقش بندی صاحب! آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں اگر بھارتی کتوں سے آپ کو خوف آنے لگا تو پھر اُن کی فوج سے آپ کیا مقابلہ کرینگے. ” اجنبی شخص نے کہا کہ ”نہیں جی میں اکیلے کیوں جاتا، محلے کے لوگوں کو اکٹھا کرو، نعرہ لگاؤ حملہ ہوگیا ہے ، حملہ ہوگیا ہے ، تو پھر لوگ اپنے گھر سے باہر نکلیں گے ، چیخیں گے کہ حملہ ہوگیا،” یہ کیا حملہ ہوگیا ، حملہ ہوگیا کا شور کرکے لوگوں کی نیند خراب کر رہے ہیں ، اگر حملہ ہوتا تو بندوق سے گولیوں کے چلنے کی آواز آتی ، توپ اور ٹینک گرجنے لگتے، محلے کے نوجوان بندوق، کلہاڑ اور جھاڑو لے کے بھارت کی فوج کا پیچھا کرتے ، اُنہیں پکڑ کر میدان میں لے جاتے اور اُن کی وردی اُتارتے”
محلے کے ایک اور شخص نے کہاچند لمحہ بعد محلے کے سارے لوگ جمع ہوکر اُس شخص کے پاس پہنچ گئے جسے کتے نے کاٹا تھا، رضوان نقش بندی صاحب نے پہلے اپنی زبان کھولی اور پوچھا کہ ” کیا حال ہے ، کیا کتے نے تمہیں کاٹا تھا یا تم نے کتے کو؟”
” نہیں جی ! کتے نے مجھے ایک ماہ کے اندر تیسری مرتبہ کاٹا ہے، میں تو اب یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا ہوں ، کہ اِن کتے کے پیچھے بھارتی حکومت کا ہاتھ ہے ، بجائے پاکستانیوں کو رائفل کی گولیوں سے ہلاک کرنے کے ، اُنہیں کتوں سے کٹوادیا جائے، بھارتی فوج کو کتے، بندر اور سانپ کو بحیثیت ہتھیار استعمال کرنے میں بڑی مہارت حاصل ہیاور ہمارے ملک کے ہسپتالوں میں کتے کاٹنے کا شاٹ تک دستیاب نہیں.جب کسی کو کتا کاٹتا ہے تو اِس کا ڈھنڈورا سارے ملک میں پیٹا جاتا ہے، اور کتے کاٹنے کے شاٹ کی اپیل کی جاتی ہے، اور متاثرہ شخص کو یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ بھی کتے کو کاٹ لے .”
” اچھا یہ بتاؤ جی! تمہاری رہائش کہاں ہے؟”
میرے بھائی لاہور سے میں کراچی آیا ہوں تاکہ خدانخواستہ اگر جنگ چھِڑجائے تو اُس کا ایندھن نہ بن جاؤں. لاہور والوں کو منٹ منٹ کا پتا ہوتا ہے کہ بھارتی فوج کیا کر رہی ہے، کدھر کا رخ کر رہی ہے، فی الحال ایک قدم آگے تو دو قدم پیچھے چلے جانا اُس کا مقدر ہے۔













