شاعری اورشعور کی بیداری!!!
اکثر لوگ شاعری کو کارِ زیاں گردانتے ہیں اور شاعر کو معاشرے کا بیکار عضو قرار دیتے ہیں۔ وہ ایک زاوی نظر سے درست ہیں اور ایک نقط نظر سے غلط۔ جو شعرا شعر برائے شعر کہتے ہیں اور ادب برائے ادب کے طرف دار ہیں اور شاعری میں داغ دہلوی کی طرح زبان کے چٹخارے لینے میں مگن ہیں یا ہوس پرستی اور شراب خوری کو ہی شاعری کا مقصد سمجھتے ہیں ،وہ واقعی معاشرے کے عضوِ معطل ہیں۔ یہ شعر انسان سازی اور آدم گری نہیں بلکہ بت گری میں مبتلا و مشغول ہیں۔ شاعر کے لغوی معنی صاحبِ شعور کے ہیں۔ شاعر صاحبِ بصیرت ہوتا ہے۔ قرآنِ مجید نے بے عمل اور خیالی پلائو پکانے والے شعرا کی مذمت شعرا میں کی ہے۔ ارشادِ پروردگار ہے۔ اور شاعروں کی پیروی بہکے ہوئے لوگ ہی کرتے ہیں۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ وہ (شعرا) ہر وادی میں سرگرداں پھرتے ہیں اور ایسی باتیں کہتے ہیں جنہیں خود نہیں کرتے) اِن آیات میں عملی زندگی سر بیگانہ شاعروں کی مذمت کی گئی ہے جو زلفِ جاناں اور دامِ ہمرنگِ زمیں میں اسیر ہیں اور زندگی کے مسائل و مصائب سے بے پرواہ ہیں اور مجنوں کی طرح لیلیٰ کو دشت میں پکارتے سرگرداں ہیں،اگر دنیا کی مختلف زبانوں کا مطالعہ کیا جائے تو اکثر زبانوں کی شاعری میں گل و بلبل، حسن و عشق اور ہجر و وصال کے قصے ہی ملتے ہیں۔ عربی، فارسی اور اردو شاعری کا بیشتر حصہ اسی قسم کی شاعری پر مبنی ہے۔ انگریزی ، اطالوی اور فرانسیسی شاعری کا ابتدائی دور بھی رومانوی شاعری کا شاہکار ہے۔ اردو شاعری میں الطاف حسین حالی نے اصلاحی شاعری کا بیڑہ اٹھایا۔ مقدم شعر و شاعری میں اس موضوع پر تفصیل سے لکھا۔ محمد حسین آزاد نے بھی قومی، مقصدی اور نیچرل شاعری (Natural Poetry) کا اعلان کیا۔ اسماعیل میرٹھی کی نظمیں اِسی فکر کی غماز ہیں۔ علامہ اقبال نے بھی کہا!
شعر را مقصود اگر آدم گریست
شاعری ہم وارثِ پیغمبر ایست
دوسری قسم کے شعرا وہ ہیں جو انسانی حقوق، احترامِ انسانیت، عدل و انصاف، مساوات و مواخات ، آزادی ، اور امن و امان کے مبلغ ہیں۔ بقولِ علامہ اقبال!
جب تک نہ زندگی کے حقائق پہ ہو نظر
تیرا زجاج ہو نہ سکے گا حریفِ سنگ
ظلم کے خلاف آواز اٹھانا جہاد ہے۔ جو شاعر حکمرانوں کے جور و جبر کے خلاف آوازِ حق بلند نہیں کرتا وہ شاعر نہیں بھانڈ اور مسخرہ ہے۔ مشاعروں کی شاعری عوام سے تعریف و توصیف داد کی صورت میں وصول کرنے کا جنون سنجیدہ اور فکری شاعری کا رقیب و حریف ہے۔سور شعرا کی آخری آیت میں ارشادِ باری تعالی ہے: سوائے ان (شعرا) کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہے اور جو ان پر ظلم ہوا (ظالموں سے بزبانِ شعر ) انتقام لیا۔ یعنی ظلم اور ظالم کے خلاف تیغِ شاعری کو بے نیام کرنا شاعرِ حق کا کام ہے جبکہ شاعرِ باطل یا تو خاموش رہتا ہے یا وہ ظالم حکمرانوں کا قصیدہ خواں بن کر توہینِ انسانیت کا شکار ہوتا ہے۔ یہ کہنا کہ قرآنِ مجید نے شاعروں اور شاعری کی مذمت کی ہے ،سراسر غلط الزام و بہتان ہے۔ جس طرح علمائے حق اور علمائے سو ہیں اسی طرح شعرائے حق اور شعرائے سو بھی ہیں۔ رہا شاعری کا معاملہ تو یہ عطی پروردگار ہے۔ شاعر پیدائشی شاعر ہوتا ہے۔ رسول پر نزولِ وحی اور شاعر پر نزولِ الہام ہوتا ہے۔ دشمنانِ اسلام اور مشرکینِ مکہ نے پیغمبرِ اسلام پر یہ الزام لگایا کہ یہ شخص شاعر ہے اور اپنی طرف سے آیتیں بناتا ہے۔ اِس الزام کا جواب قرآنِ مجید نے سورہ یاسین میں اِن الفاظ میں دیا اور ہم نے ان کو (یعنی محمد) کو شعر کہنا نہیں سکھایا اور نہ ہی یہ ان کے شایانِ شان ہے ،یہ (کتاب) تو فقط نصیحت اور روشن قرآن ہے۔ اِن آیات سے یہ ثابت ہوا کہ شاعری ایک علم ہے کیونکہ قرآنِ مجید کے یہ الفاظ و ما علمن الشعر اِس حقیقت کا اعلان ہے کہ شاعری ایک علم ہے جو نبیوں کو نہ کہ شاعروں کو عطا ہوا جبکہ نبیوں کو علمِ شاعری نہیں بلکہ وحی سے نوازا گیا۔شاعری کے موضوع پر اِس مختصر سی تحریر کا مقصد یہ ہے کہ شاعری از روئے اسلام کارِ حرام نہیں اور نہ ہی قرآنِ مجید نے شاعری کی مذمت کی ہے ۔ قرآنِ مجید نے ان شاعروں کی مذمت کی ہے جو بے راہروی، بد اعمالی، حاشیہ برداری، چاپلوسی ، بے ضمیری اور نفرت و نفرین کا درس دیتے ہیں اور جو انصاف پسندی ، حق پرستی ، امن و امان، محبت واخوت، عدل گستری اور انسانیت کا درس دیتے ہیں ان کی مدِحت کی ہے۔ میری نظر میں انقلابی شعرا انسانیت کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ وہ شعر جو طاغوتی اور فسطائی قوتوں کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں اور جان سے کھیل جاتے ہیں وہ پیغمبر تو نہیں لیکن کارِ پیغمبری کرتے ہیں اور ایسے ہی شاعروں کے بارے میں حدیثِ رسول صلعم ہے: الشعرا تلامیذ الرحمان یعنی شعرا اللہ کے شاگرد ہیں۔ اگر شاعری رزیل ہوتی تو پیغمبرِ اسلام حضرت حسان بن ثابت کی نعتیہ شاعری کی مدحت نہ کرتے۔ تاریخ میں مرقوم ہے کہ حضور صلعم حضرت اپنے چچا حضرت ابو طالب کی شاعری کے مداح تھے۔علاوہ ازیں آپ ایک مشہور شاعر کو بلوا کر اس کے اشعار سماعت فرماتے۔ شاعری کا وزن ایک علمِ وہبی و ربانی ہے جو صرف اور صرف پیدائشی شعر کا نصیب ہے۔ ہر شخص وزن میں شعر نہیں کہہ سکتا۔ شاعری کے عروض سے واقفیت نقادوں کا کام ہے۔ شاعر کا عروض سے بلد ہونا ضروری نہیں ۔ بقولِ مولانا رومی من نہ دانم فاعلات و فاعلات و فاعلات ۔ جو لوگ پیدائشی شاعر نہیں وہ ہیتِ شاعری میں نت نئے تجربے کر رہے ہیں جو کہ حقیقی شاعری سے گریز ہے۔ شاعری زبان و بیان کی سلاست و بلاغت، فکر کی جدت اور جذبات کی حدت کا نام ہے ۔ جو شخص اِن خدا دار خوبیوں سے عاری ہے وہ شعر کہنے کی صعوبت سے دور رہے اور نثر میں اظہارِ خیال کرے تو اس کی بھی اور قارئینِ ادب کی بھی اِسی میں بہتری ہے۔ مرزا غالب نے کہا تھا!
ما نبودیم بدین مرتبہ راضی غالب
شعر خود خواہشِ آن کرد کہ گرد فنِ ما
٭٭٭