ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے فقیہ اہل بیت ع، نابغ روزگار، مفسر قرآن ، بلوچستان اسلامی جمہوریہ ایران کے سابق چیف جسٹس سو سے زائد کتب کے مصنف و ملف، معروف ادیب و شاعر۔ عالم باعمل، فاضل اجل ، سفیر امن ،ہمارے محسن اور برادر بزرگ حضرت آیت اللہ علامہ شیخ حسن رضا غدیری صاحب قبلہ لندن میں داعئی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ جانا تو ہم سب نے ہے دیر یا سویر۔ اللہ عاقبت بخیر فرمائے ۔ آغا مرحوم تعلیم و تدریس میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔ خطابت میں مہارت کاملہ رکھتے تھے۔ عربی، فارسی، اُردو، سرائیکی ، پنجابی اور انگلش میں خطاب فرماتے تھے، جنب ولایت اہل بیت ع و جذب فروغ عزا آپکو ورثے میں ملا تھا۔ ولایت علی ع آپ کا موضوع سخن رہتا تھا۔ عبادت گزار و شب زندہ دار تھے ۔ اہل زبان نہ ہوتے ہوئے رموز اردو سے مکمل آشنا تھے۔ عربی عربوں کی طرح۔ فارسی ایرانیوں کی طرح اور اردو لکھن یوں کی طرح بولتے تھے۔جب آپ گفتگو فرماتے تو آپکے منہ سے موتی جھڑتے تھے۔ اخلاق اہل بیت ع کا نمونہ تھے۔ جب ہم تھم گئے تو آپکا طوطی بول رہا تھا۔ پاکستانی نژاد علما و طلبہ میں آیت اللہ کا شمار درجہ اولیٰ کے فضلا میں ہوتا تھا۔ آپ ہم جیسے چھوٹے طلبہ پر بڑے مہربان تھے۔ آپ مہمان نوازی میں اپنی مثال آپ تھے ۔ ہماری پوری سرپرستی فرمائی۔ نجف، قم ، برطانیہ اور دمشق میں مراکز دین قائم کیے۔ اہل بیت ٹی وی کے بانی تھے ۔ اپنے شہر میں والدہ کی یاد میں شفاخانہ بنایا۔ بڑے غریب پرور تھے۔ یتیم نواز تھے۔ اللہ نے آپکو بڑا دل دیا تھا۔ استاذالعلما آیت اللہ محمد یار شاہ صاحب قبلہ نجفی کے لائق ترین شاگردوں میں سے تھے۔ انکے خانوادہ کے عقیدت مند تھے ۔ جامعت المنتظر میں طالبعلم رہے تو طراز اول کے اور استاد رہے تو درجہ اولی کے۔ میرے استاد علامہ محمد رضا غفاری قبلہ کے کلاس فیلو تھے ۔ آغا نے پسماندگان میں بیوہ، چار فرزند، دو صاحب زادیاں اور گرینڈ چلڈرن چھوڑے ہیں۔ میں جب بھی مانچسٹر جاتا تو پہلے آغا کی خدمت میں حاضری دیتا اور پھر آپکے حکم کی تعمیل میں خطاب کرنے چلا جاتا تھا۔ مانچسٹر میں کاظمی سادات سے اور لندن میں سب سے انہوں نے ہی میرا تعارف کرایا تھا۔ راقم اور برادرم آیت اللہ راجہ محمد مظہر علی خان نے جب قم میں عمومی تدریس شروع کی تو آغا نے آیت اللہ سید نیاز حسین نقوی قبلہ کے ساتھ ملکر ہمپر بڑی شفقتیں فرمائیں۔ ہم دونوں اور سینکڑوں طلاب قم آپکے احسانات کو کبھی بھول نہ پائینگے جو طلبہ مالی طور پر کمزور ہوتے آغا انکی پردہ پوشی سے مدد فرماتے تھے۔ المہدی سینٹر بروکلین اور محمدیہ سینٹر ورجینیا میں آپ نے نے عشرات محرم بھی پڑھے آپکے والد بزرگوار علامہ مفتی مزمل حسین میثمی غدیری بہت بلند پایہ عالم با عمل تھے اور آپکے صاحب زادے علامہ ہاشم غدیری نجفی بھی معروف عالم اور بلند پایہ خطیب ہیں۔آپکے دیگر فرزندان آغایان غدیری برادران ابوطالب، محسن اور محمد رضا بھی اہل خیر اور پکے عزادار ہیں۔ آپکے داماد علامہ مرزا جواد بھی معروف عالم و خطیب ہیں۔ جب کہ صاحب زادیاں بھی ذکر اہل بیت ع کرتی ہیں۔ آغا کی ساٹھ سالہ دینی علمی ادنی سماجی خدمات سنہرے حروف سے لکھی جائیگی۔آپکی تصانیف اردو، فارسی اور عربی میں ہیں ۔ آپ نے وقت کا صحیح استعمال کیا۔ اور کوئی لمحہ ضائع نہیں کیا۔ جس روز آغا کا انتقال ہوا اسی روز شیرازی برادران سے ورجینیا میں ظہرانہ پر ملاقات ہوئی تو تو انہوں نے بتایا ادارہ محمدیہ کیلئے قبلہ کی بڑی خدمات تھیں۔ آغا کامیاب زندگی گزار کر گئے عاش سعیدا و مات سعیدا مجھے آخری بار اس سال محرم کی تیرہ کو آپکی زیارت کا شرف ملا۔ جب شیخ محمد رضا کے ساتھ مانچسٹر سے آپکے دولت خانہ پر عیادت کیلئے حاضری دی۔ سال گزشتہ ایسے ہی روز سید علی ذولفقار کاظمی اور تقوی صاحب کے ہمراہ اسپتال میں ملے تھے اب مانچسٹر جاتے ہوئے لندن کا وہ روٹین اسٹاپ ختم ہوگیا آج لندن جاتے ہوئے دکھی دل کے ساتھ یہ سطور جہاز میں لکھی ہیں اسلیے کہ آج وہ مسکراہٹ نہ ملیگی۔ آج وہ شفقت نہ ملیگی۔ آج جواب سلام بھی سنائی نہ دیگا آج ہمارے محسن کی آنکھیں بند ملینگی ۔ مگر یقین ہے خانواد ابوتراب ع اپنے سچے عاشق و خدمت گزار و عزادار کو سنبھالیگا اور دنیا میں کروڑوں عقیدت مند انہیں ہمیشہ دعاں میں یاد رکھینگے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ، لرزتے دل کے ساتھ اس شعر پر مضمون کو سمیٹنا ہوں
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
تمہی سو گئے داستاں کہتے کہتے
٭٭٭