محترمہ ثمرین ندیم ثمر کا تعلق کراچی سے ہے مگر مدتِ مدید سے آپ دوحہ/ قطر میں مقیم ہیں اور اردو زبان کی آبیاری دیارِ غیر میں بھی خونِ جگر سے کر رہی ہیں۔ آرزو کا دِیا آپ کا شعری مجموعہ زیرِ طبع ہے۔ آپ نے واٹس ایپ پر اس کی پی ڈی ایف بھیجی ہے اور رائے کی فرمائش کی ہے۔ اس سے قبل ان کا شعری مجموعہ خوشبوئے خیال شائع ہو چکا ہے جس پر میری مفصل رائے شائع ہو چکی ہے جو میری حال میں چھپنے والی کتاب ادبی تبصرے میں شامل ہے جسے گذشتہ ماہ نیشنل بک فاونڈیشن اسلام آباد نے شائع کیا ہے، آرزو کا دیا آپ کی غزلیات کا مجموعہ ہے۔ آپ بنیادی طور پر غزل کی شاعرہ ہیں۔ آپ کی غزلیات سادہ وسلیس زبان میں ہیں اور سہلِ ممتنع کی بہترین ترجمان ہیں۔ آپ کے دل کا سوز و گداز آپ کے شعروں سے عیاں ہے۔کسی کی آرزو انسان کو ماہء بے آب کی طرح تڑپا دیتی ہے۔ یہ آرزو ذاتی بھی ہو سکتی ہے اور کائناتی بھی۔ شاعر کا ذاتی غم اصل میں آفاقی غم ہوتا ہے۔ آرزو کا دِیا جلتا رہے تو عزائم جواں رہتے ہیں۔ تمنا جو آرزو کا دوسرا نام ہے جب اس کا چراغ گل ہو جائے تو پھر بقولِ شاعر!
تم جو گل کر گئے ایک تمنا کا چراغ
محفلِ زیست کی سب شمعیں بجھا دیں میں نے
آرزو پوری ہو جائے تو وصل اور اگر پوری نہ ہو تو فراق۔ آرزو کا دِیا وہ تابناک دِیا ہے جو ہمہ وقت خونِ دل سے جلتا رہتا ہے اور زندگی کی شبِ درماندہ میں امید کی کرنیں بکھرتا رہتا ہے۔
میری ایک فارسی غزل کا مطلع ہے
یک لحظہ در حیات میسر نہ جام شد
در آرزوئے وصلِ تو عمرم تمام شد
آرزو وہ بیتابء دل ہے جو مرغِ بسمل کی طرح عاشق کو تڑپاتی ہے۔ جب تک آرزو زندہ ہے دل زندہ ہے۔ مرگِ آرزو مرگِ دل ہے اور مرگِ دل انسان کو زندہ درگور کر دیتی ہے۔ جب آرزو اور انتظار کا مرحل جانکنی ہو تو پھر بقولِ شاعر!
عمرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں
شیرین ندیم ثمر کی شاعری میں غمِ جاناں اور غمِ دوراں کے ساتھ ساتھ غمِ انساں کا تذکرہ بھی ہے۔ انقلابی اور فکری رنگ کی ایک جھلک دیکھیں۔ کہتی ہیں!
وقت چلتا رہا، رک نہ پایا کہیں
دے نہ پائی مجھے عمرِ رفتہ حساب
وہ انسان دوست اور امن پرست شاعرہ ہیں۔ وطن سے شدید محبت ان کے خون میں رچی بسی نظر آتی ہے۔ کہتی ہیں
آ کے پردیس میں یاد آیا وطن گھر اپنا
وہ جہاں اپنا، محبت کا سمندر اپنا
آپ کی غزلیات زیادہ تو رومانوی ہیں۔ دردِ ہجر سے بھرپور اور شعل شمعِ طور ہیں۔ مرزا غالب نے کہا تھا!
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
مرزا غالب کی آرزو رہی کہ کوئی ان کے مرضِ عشق کی دوا کرے جبکہ اس مرض کی اگر کوئی دوا ہوتی تو امیر خسرو یہ نہ کہتے!
از سرِ بالینِ من بر خیز اے ناداں طبیب
دردِ مندِ عشق را دارو بجز دیدار نیست
ثمرین ندیم ثمر نے اِس ضمن میں لاجواب شعر کہا ہے اور شاعری کا سادہ و سلیس انداز میں حق ادا کر دیا ہے ۔ کہتی ہیں
مسیحا اچھا ہو، پھر بھی شفا ہوتی نہیں
مریضِ عشق کی کوئی دوا ہوتی نہیں
میر تقی میر کی غزلیات تسلسلِ غم اور غمِ مستقل کی آئینہ دار ہیں۔ فرماتے ہیں
دمِ صبحِ بزمِ خوشِ جہاں شبِ غم سے کم نہ تھے مہرباں
کہ چراغ تھا سو تو دود تھا، جو پتنگ تھا سو غبار تھا
اب اس غمِ مستقل کی کیفیت کو ثمر ین ندیم ثمر کتنی خوبصورتی سے ادا کرتی ہیں۔ کہتی ہیں
ویسے تو آتے جاتے ہیں مجھ میں ہزار غم
بس اک ترا ہے غم جو مجھے مستقل مِلا
یہی وہ غمِ مستقل ہے جس سے ان کی آرزو کا دِیا ہنوز فروزاں ہے اور اس کی تپش اور روشنی سے وہ شمعِ شاعری جلائے بیٹھی ہیں۔ میری بھی یہ آرزو ہے کہ ان کی آرزو کا دیا جلتا رہے اور وقت کی آندھیاں اِسے بجھا نہ سکیں۔ ایں دعا از من و از جملہ جہاں آباد باد
٭٭٭