پاکستان میں آئین قانون اور جمہوریت کیساتھ ظلم و بربریت کا جو سلسلہ دراز کیا جا رہا ہے اور جس طرح غیر پارلیمانی طریقوں سے جعلی ووٹوں کی پارلیمان اپنے مقتدر آقا کی منشاء کے مطابق بالخصوص عدلیہ کو اپنے قابو میں رکھنے کیلئے اقدامات و ترامیم کا کھیل رچائے ہوئے ہے اس کی جمہوری تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی، ہمیں مولانا حسرت موہانی کا شعر یاد آرہا ہے، خرد کا نام جنوں پڑ گیا، جنوں کا خرد، جو چاہے آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے، ابھی 26 ویں ترمیم کی سیاہی خشک بھی نہ ہوئی تھی اور اس پر تنقید اور تشکیک کا بھونچال ختم نہیں ہوا تھا کہ سوموار کو قومی اسمبلی نے محض 30 منٹ میں آرمی ایکٹ میں ترمیم اور سروسز چیفس کی مدت ملازمت پانچ سال کرنے، سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کی تعداد میںاضافے، از خود نوٹس میں تیسرے جج کا اختیار چیف جسٹس کو دینے اور جوڈیشل کمیشن کو آئینی بینچ کی تشکیل کے علاوہ انسداد دہشتگردی ایکٹ میں ترمیم کر کے 3 مہینے زیر حراست رکھنے کے قوانین نے گویا واضح کر دیا ہے کہ لنگڑی لولی اور خوفزدہ حکومت زور دار مقتدرہ کے اشارے پر ہی عمل پیرا ہے۔ آرمی ایکٹ میں ترمیم سے موجودہ سربراہ کا کم از کم ٹینیور 2027 تک بلکہ ایکسٹینشن کی صورت میں 2032ء تک جاری ہو سکتا ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترمیم ججز پر قابو اور اپنی حمایت کے ججز لانے اور انسداد دہشتگردی کے تحت جسے چاہا 3 مہینے تک اسکا سافٹ ویئر تبدیل کرنے کے سواء اور کیا ہو سکتا ہے۔ ان تمام حرکات کا مقصد اس کے سواء اور کچھ نہیں کہ عمران خان اور اس کی جماعت و حامی سپورٹرز پر جبر و استبداد کا سلسلہ جاری رکھا جائے اور اسٹیبلشمنٹ اپنے ہدف کی تکمیل میں کامیاب ہو۔ یہ بات اب ایک حقیقت بن چکی ہے کہ جب تک موجودہ آرمی چیف اپنی پوزیشن پر موجود ہے وہ اسی نظام کو جاری رکھے گا جس کے سبب اس کے وہ اپنے ذاتی اختلاف کے سبب ملک کے حقیقی رہنما و قائد اور عوام پر مظالم کی تلوار لٹکائے رکھے گا۔ مظالم کی انتہاء و سخت کوشی کی تازہ ترین مثال کپتان کے وکیل انتظار پنجوتہ کی گمشدگی، اس پر مظالم اور اٹارنی جنرل کے عدالت سے 24 گھنٹے کے وعدے کے بعد برآمدگی ہے۔ پولیس کے غیر استدلالی بیان کے باوجود یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ انتظار پنجوتہ کو کس نے اغواء کیا تھا، مظالم کئے تھے، اور ان کے مقاصد کیا تھے۔ علیمہ خان کے بیان سے قارئین یقیناً واقف ہو چکے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ظلم و بربریت کا یہ سلسلہ عمران خان، اس کے ساتھیوں اور چاہنے والوں پر ظلم و فسطائیت کی حدود اور پاکستان تک ہی محدود نہیں ہیں ان کی حدود اب بیرونی ممالک تک وسیع ہو چکی ہیں ار پی ٹی آئی کے ہمدرد و حامی اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ لندن میں وہاں کے پی ٹی آئی اراکین کیخلاف ایک حالیہ واقع کو آڑ بنا کر حکومتی وزیر داخلہ محسن نقوی کی تحریک پر لندن پولیس کے جبر و ستم کی تصویر پی ٹی آئی کی لڑکی نے وائرل ہونے والی تصویری فلم کے ذریعے دکھا دی جس میں اس کے گھر کو پولیس نے تباہ و برباد کر دیا اور وہ اس ظلم پر احتجاج کرتے ہوئے اقوام متحدہ سمیت علمی اداروں کو اپروچ کرنے کے عزم کا اظہار کر رہی ہے۔
ہم نے بارہا اپنے کالموں میں متعدد بار ان خدشات کا اظہار کیا ہے کہ ذاتی پرخاش اور حقیقی عوامی قائد سے دشمنی محض دو فریقین کیلئے نہیں بلکہ ملک کی تباہی کا پیش خیمہ ہے۔ حالات جس نہج پر جا رہے ہیں عوام جن مشکلات اور غیر یقینی حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ کسی بھی طرح وطن عزیز کے حق میں نہیں لیکن ہماری بدنصیبی ہے کہ ہمیشہ اختیار و اقتدار مقتدرین نے اپنی رٹ برقرار رکھنے کیلئے عوام اور عوام کے قائدین کیساتھ فسطائیت و زور آوری کے ذریعے نہ صرف انہیں دیوار سے لگایا ہے حتیٰ کہ انہیں زندگی سے محروم کرنے میں کوئی عار نہیں کی ہے لیکن اس کے اثرات سے ان آمروں کا انجام بھی کچھ اچھا نہیں ہوا۔ موجودہ مقتدر سربراہ کو کم از کم ماضی کے حقائق سے ہی سبق لینا چاہیے، بقول شاعر ظلم کی زیست فقط چار گھڑی پھر وہی موت۔ کامراں طلم پہ ظلم سدا ہوتا ہے!
ہم بطور محب وطن پاکستانی یہی عرض کر سکتے ہیں کہ بغض عمرانیہ میں ملک کو دائو پر نہ لگایا جائے، ایک جانب دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے حالات کامقابلہ کرنے میں وطن عزیز کے بیٹے ہر روز وطن عزیز کیلئے اپنے لہو کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں تو دوسری جانب عالمی محاذ آرائی کی شدید صورتحال کے حوالے سے خصوصاً اسرائیل ایران محاذ آرائی کے سبب پاکستان پر اس کے اثرات کے خدشات ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ غیر معمولی حالات سے مقابلہ کیلئے صرف عسکری قوت ہی نہیں ساری قوم کا اتحاد و اشتراک لازم ہوتا ہے۔ وطن عزیز کے موجودہ حالات انتشار و افتراق کی وہ تصویر ہیں جو کسی بھی ناگہانی کا سبب بن سکتے ہیں۔ اپنی اغراض کیلئے نت نئے قوانین، ترامیم اور ہتھکنڈے ہرگز قومی یکجہتی و سلامتی کی ضمانت نہیں ہو سکتے، اصل حکمرانوں کو اللہ کریم عقل سلیم عطاء فرمائے اور وہ ملک کی سلامتی و تحفظ کیلئے ساری قوم کو حالیہ انتشار و نفاق سے گریز کر کے اتحاد و اتفاق کو اپنی اولین ترجیح بنا سکیں۔ عوامی اتفاق و یکجہتی ہی ملک کی سلامتی کی ضمانت ہے، ذاتی مخاصمت، مفاد اور آپس کی محاذ آرائی شکست و ریخت کے سواء کچھ نہیں۔
٭٭٭٭