واشنگٹن (پاکستان نیوز) پاکستان تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان محاذ آرائی ہر گزرتے دن بڑھتی جا رہی ہے ، پی ٹی آئی کو کھڈے لائن لگانے اور عمران خان کو پابند سلاسل کرنے کے باوجود بھی پی ٹی آئی پر مظالم کا سلسلہ بند نہیں ہو رہا ہے ،اب پابندی کی اطلاعات زیر گردش ہیں ، پاکستانی حکومت پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے لیے ایک ریفرنس سپریم کورٹ بھیجے گی جہاں ایک طرف حکومتی وزرا اور مسلم لیگ ن کے رہنما تحریک انصاف پر ‘انتشار کی سیات کرنے’ کا الزام لگاتے ہیں وہیں بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اس کا مقصد جماعت پر دباؤ بڑھانا ہے۔ایک پریس کانفرنس میں وفاقی وزیرِ اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے یہ بھِی اعلان کیا کہ ان کی حکومت عمران خان، سابق صدر عارف علوی اور قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری پر آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت ‘غداری’ کا مقدمہ بنائے گی۔حکومت کا یہ فیصلہ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب تین دن قبل پاکستان کی سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو ایک پارلیمانی جماعت تسلیم کرتے ہوئے یہ فیصلہ دیا ہے کہ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دی جائیں،سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف حکومت نے نظرِ ثانی کی اپیل دائر کی ہے۔عدالت کے 13 رْکنی بینچ کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی جن نشستوں پر دعوے کرتی آ رہی ہے، وہ ملنے کی صورت میں قومی اسمبلی میں اس کی 84 نشستیں بڑھ کر 107 ہو جائیں گی اور یوں یہ سب سے زیادہ نشستوں والی جماعت بن سکے گی، اس کے مقابلے میں حکومتی جماعت مسلم لیگ ن کے پاس 106، پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس 69، ایم کیو ایم کے پاس 22 اور جمیعت علمائے اسلام کے پاس نو نشستیں ہوں گی یہاں کچھ سوالات جنم لیتے ہیں کہ حکومت کو پی ٹی آئی پر بطور سیاسی جماعت پابندی لگانے کی ضرورت کیوں پڑی، اس کے ملکی سیاست پر کیا اثرات ہوں گے اور کیا عمران خان کی جماعت پر پابندی لگانا ممکن ہے بھی یا نہیں؟وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ کے مطابق نو مئی کے حملے، سائفر کے معاملے اور امریکہ میں قرارداد سمیت ایسے شواہد موجود ہیں جن کی بنیاد پر پی ٹی آئی پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اس لیے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ‘حکومت تمام ثبوتوں کو دیکھتے ہوئے تحریکِ انصاف پر پابندی لگائے گی۔آرٹیکل 17 کے مطابق پاکستان کی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی ایسی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کر سکتی ہے جو پاکستان کی ‘خودمختاری اور ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہو۔سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج شائق عثمانی نے اس حوالے سے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ‘آئین کا آرٹیکل 17 یہ کہتا ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت پاکستان کی خودمختاری یا ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہو تو اس سیاسی جماعت پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔’اس کے لیے انھیں (کابینہ کے) فیصلہ کے بعد 15 دنوں میں سپریم کورٹ میں ایک ریفرنس دائر کرنا ہوتا ہے۔ان کے مطابق اگر سپریم کورٹ یہ سمجھتی ہے کہ حکومت کے پاس موجود ثبوت کارروائی کے لیے کافی ہیں تو وہ الیکشن کمیشن کو حکم دے سکتی ہے کہ اس سیاسی جماعت کو تحلیل کر دیا جائے تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ اور آئی ایم ایف کو لکھے گئے خط کو بنیاد بنا کر پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی بات کی جا رہی ہے، ‘لیکن میں نہیں سمجھتا کہ یہ وجوہات کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کے لیے کافی ہیں جہاں تک بات رہی 9 مئی اور غیر ملکی فنڈنگ کے مقدمات کی تو یہ تمام کیسز ابھی عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر حکومت پی ٹی آئی پر پابندی لگانے جا رہی ہے تو ہو سکتا ہے ان کے پاس مزید کوئی ثبوت بھی ہوں کیونکہ حکومت تمام باتیں تو میڈیا پر آ کر نہیں کرتی۔خیال رہے دو سال قبل الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ پی ٹی آئی نے غیرملکی ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی ہے۔پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کر رکھا ہے یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان میں الیکشن قوانین کے مطابق اگر کوئی سیاسی جماعت تحلیل کر دی جائے تو اس کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی بھی اسمبلیوں کی بقیہ مدت کے لیے نااہل ہو جاتے ہیں۔