محترمی و مکرمی ۔آپ فلسطین کی آزادی اور ان پر جو اسرائیل ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے، اللہ سے دعا کر رہے ہیں کہ ان مظلوموں کی مدد فرمائے اور لوگ آمین کہہ رہے ہیں۔ دعا میں تاثیر ہے۔ دعا کی دو اقسام ہیں، ذاتی اور قومی، اگر کسی شخص کا کوئی ذاتی معاملہ ہے ۔ مثال کے طور پر کوئی گھریلو پریشانی ہے تو اللہ سے رجوع بصورتِ دعا لازم ہے لیکن اجتماعی اور قومی مسائل میں اجتہاد اور جہاد سے معاملات طے ہوتے ہیں۔ پیغمبرِاسلام اور صحابہ کرام نے تیغ کا مقابلہ تیغ سے کیا۔ دعائوں سے ایران، مصر ، شام، فلسطین اور عراق فتح نہیں ہوئے۔ یہ جذبہ جہاد اور جنگی تیاری ہی تھی جس نے قیصر و کسریٰ کے در و دیوار ہلا دیے۔ صرف دعائوں سے نہ آزادی ملتی ہے اور نہ ہی انصاف ملتا ہے،دعا اور دوا دونوں لازم و ملزوم ہیں۔آج ہمارے دامن میں صرف مولویوں اور پیروں کی بے اثر دعائوں اور اوہام کے سوا کچھ بھی نہیں، قانونِ قدرت اٹل ہے۔ قرآنِ مجید میں ارشادِ پروردگار ہے ،ان اللہ لایغیر ا ما بقوم حتی یغیروا ما با نفسھِم مولانا ظفر علی خان نے اسی آیتِ کریمہ کے پیغام کو اپنے ایک شعر میں یوں رقم طراز کیا !
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
قرآنِ مجید کی اِس آیت کی موجودگی میں بھی اگر مسلمانوں کو عقل نہیں آئی تو پھربریں عقل و دانش بباید گریست والا معاملہ ہے۔ لیکن عملی حقیقت یہ ہے کہ قومیں دعائوں سے نہیں ، عمل اور قوت سے زندہ رہتی ہیں۔ مسلمانوں میں نہ اتحاد ہے ، نہ ہی سائنسی ترقی،جاہل اور تقدیر پرست ہیں۔زمانے کے تقاضوں سے نابلد۔ جدید علوم سے بے بہرہ، شہنشایت ، ملائیت ،اور خانقاہیت والوں کا یہی انجام قانونِ فطرت کے تقاضوں کے مطابق ہے۔ بقولِ علامہ اقبال خدائے زندہ زندوں کا خدا ہے۔ افسوس صد افسوس فلسطین میں بچے اور عورتیں بے دریغ شہید ہو رہے ہیں اور بے غیرت مسلمان حکمران سو رہے ہیں۔
تفو بر تو اے چرخِ…گرداں تفو
ترکی، مصر اور اردن نے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے، سعودی عرب اور عرب امارات بھی اسے تسلیم کرنے کے لیے پر تول رہے تھے کہ Gaza کا تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ چند مغربی اور اشتراکی ممالک نے اسرائیل سے غزہ کے عوام پر مظالم ڈھانے پر اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کر لیئے ہیں۔امریکی صدر، امریکی وزیرِ خارجہ اور انگلینڈ کے وزیرِ اعظم نے اسرائیل کا دورہ کر کے قاتل و دہشت گرد اسرائیلی وزیرِ اعظم کو غزہ کے معصوم مسلمانوں کے قتلِ عام کی اجازت دی، دریں حالات مسلمانوں کے تابناک مستقبل کے لئے چند تجاویز ہیں۔ -مسلمان ممالک سے ملوکیت کا فوری خاتمہ کر کے جمہوری حکومتیں قائم کی جائیں۔ – مسلمان ممالک یورپی یونین کی طرز پر اتحادی محاذ قائم کریں جو علامہ اقبال کی بھی خواہش تھی۔ -NATO کی طرز پر اسلامی فوج تیار کریں جو ان پر جارحیت کی صورت میں مقابلہ کر سکے۔ اِن کے پاس اگر ایسی فورس ہوتی تو آج غزہ/ فلسطین میں ہمیں یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ – مسلمان ملائیت ، خانقاہیت ، فرقہ پرستی ،جاگیر داری اور سرمایہ داری سے دامن چھڑائیں ۔ مسلمان سائنس اور ٹیکنالوجی کو اپنائیں تاکہ دشمنانِ اسلام کو ہر سطح پر مقابلہ کر سکیں۔ جب تک ہم اِن اقدار اور اقدام پر عمل نہیں کریں گے ہم بے موت مارے جائیں گے۔ ٭٭٭