جشن آئین یا ماتم !!!

0
20
رمضان رانا
رمضان رانا

پاکستان میں گزشتہ چند ماہ سے مختلف پلیٹ فارموں پر پچاس سالہ جشن منایا گیا جس میں آئین شکنوں کو سزائیں دینے کا کوئی ذکر نہ ہوا کے جنہوں نے دو مرتبہ آئین پاکستان منسوخ اور تین بار معطل کیا تھا جس کا مطلب آئین کی منسوخی اور معطلی سے پاکستان پانچ مرتبہ ٹوٹ چکا ہے جو ایک دفعہ عملی طور پر1971میں ٹوٹا باقی کے بچے کھچے ملک کوطاقت جمع رکھا گیا ہے لہٰذا جشن منانے والوں کو دو مرتبہ آئین منسوخی اور تین مرتبہ معطلی پر ماتم بھی کرنا چاہئے تھا۔ جس میں تقریباً آئین پاکستان چالیس سال تک نافذ نہیں رہا ہے۔ تاہم ہندوستان اور پاکستان دنیا کے دو واحد آزاد ہونے والے ممالک ہیں کے جن کی آزادی کے بعد بھی ہندوستان پر ایک سال اور پاکستان پر9سال تک برطانوی بادشاہت کے ماتحت رہ چکے ہیں کہ جب ہندوستان نے آئین نہیں بنایا تھا تو لارڈ مائوئنٹ بیکن گورنر جنرل رہے جبکہ پاکستان پر9سال تک برطانوی بادشاہت کے نامزد گورنر جنرل یکے بعد دیگرے نامزد ہوئے تھے جس میں پہلے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح اور آخری گورنر جنرل میجر جنرل سکندر مرزا تھے۔ جن کو1956کے آئین کے تحت پاکستان کا پہلا صدر نامزد کیا گیا تھا۔ جنہوں نے دو سال بعد اس وقت کے کمانڈر انچیف اور وزیر دفاع جنرل ایوب خان کی مدد سے سات اکتوبر1958کو ملک کا پہلے آئین کو منسوخ اور مارشلاء لگا دیا تھا جن کے نائب وزیراعظم بھی جنرل ایوب خان تھے۔ جن کو آخر کار اسی جنرل ایوب خان نے27اکتوبر1958کو ملک بدر کرکے ملک پر قبضہ کرلیا تھاجو پاکستان کے پہلے غیر آئینی اور غیر قانونی صدر، آرمی چیف ملک کے سربراہ اور حکومت کے سربراہ کہلائے جن پر اگر برطانوی طرز پر مقدمہ چلایا جائے تو مرحوم کی قید پر سزائے موت کی تختی لٹکائی جاسکتی ہے مگر ایسا نہیں ہوا ہے۔ ان کی تعدادیں گوہر ایوب اور عمر ایوب کی شکل میں آج بھی پاکستان میں سیاست کر رہی ہیں جن سے یہ سب کچھ ن ہیں پوچھا گیا کہ آپ کے آبائو واجداد نے ملک کے ساتھ کیا کھیل کھیلا تھا۔ بعدازاں آئین پائمالی منسوخی اور معطلی کا سلسلہ چل نکلا کے جنرل ایوب خان کے گدی نشین جنرل یحیٰی خان نے مارچ1969میں1962کا آئین منسوخ کرکے مارشلاء نافذ کرتے ہوئے خود ایک غیر آئینی اور غیر قانونی صدر بن گئے جنہوں نے اسی آڑ میں پاکستان کو دولخت کردیا۔ پھر ان کوکھ سے پیدا ہونے والے جنرل ضیاء الحق نے پانچ جولائی1977کو آئین معطل کرتے ہوئے گیارہ سال تک حکمرانی کی ہے یا پھر ایک اور جنرل مشرف نے بارہ اکتوبر1999کو آئین معطلی کرتے ہوئے 9سال تک حمکران رہے ہیں جن کیخلاف آخر کار تین نومبر2007کو دو بارآئین معطل کرنے پر سپریم کورٹ میں ایک تاریخی مقدمہ درج ہوا جس میں سپریم کورٹ کے ان کے تمام اقدام کو کالعدم قرار دیتے ہوئے مکمل دیا کہ جنرل مشرف پر آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ غداری قائم کیا جائے۔ جو نوازشریف کے دور میں ہوا جس میں سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ عدالت نے چیف جسٹس پشاور جناب جسٹس وقار سیٹھ کی سربراہی میں جنرل مشرف کی سزائے موت دی گئی جو آج سپریم کورٹ میں اپیل کی شکل میں ردی کی شکل میں پڑی ہوئی ہے۔ جبکہ جنرل مشرف اس دنیا سے کوچ کر چکے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس فائز عیسٰی کی اپیل کی سماعت کے بعد فیصلے کرنا چاہئے کہ جنرل مشرف کو کس طرح سزا دی جائے چاہے وہ علامتی کیوں نہ ہو۔ بہرحال پچاس سالہ جشن یا20سالہ ماتم تھا۔ جو1973ء کے آئین پر منایا گیا ہے یہ جانتے ہوئے آئین پامال ہوتا رہا ہے۔ جن کے پامال کرنے والوں کو کوئی سزا نہیں دی گئی ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان1971میں ٹوٹا جو آج بھی کمزور آئین کی وجہ سے لڑھک رہا ہے۔ جس کے خلاف جشن منانے والوں کو وعدہ کرنا چاہئے تھا کہ اب اگر کسی کے آئین معطل یا منسوخ کیا تو قوم اس جنرل کی نسل تک مٹا دے گی جس کے لئے لازم ہے جنرلوں اور ان کی نسلوں پر ملکی سیاست میں پابندیاں عائد کرنا چاہئے جو اپنے باپ دادوں کے نقش قدم پر چل کر ملک کو ہما وقت مشکلات اور مصائب میں مبتلا رکھتے ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here