سرکاری اداروں کی خودمختاری!!!

0
44

حکومت نے آئی ایم ایف کی شرط پوری کرتے ہوئے چار سرکاری اداروں کو حکومتی سر پرستی سے آزاد کرنے کے آرڈیننس جاری کر دیئے ہیں ۔چاروں ادارے اب خود مختار بورڈوں کے ماتحت کام کریں گے ۔ایوان صدر سے جاری آرڈیننسوں میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی(ترمیمی)آرڈیننس 2023، پاکستان پوسٹل سروسز مینجمنٹ بورڈ (ترمیمی)آرڈیننس 2023، پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن(ترمیمی)آرڈیننس 2023، اور پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن (ترمیمی)آرڈیننس 2023 شامل ہیں۔ حکومت کی جانب سے جاری تفصیلات کے مطابق متعلقہ وزارتوں کے سیکرٹریوں نے صدر کو آرڈیننس کی فوری ضرورت کے بارے میں آگاہ کیا کیونکہ اس سال جولائی میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ چار سرکاری اداروں (SOEs) کے حوالے سے اس معاملے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ مندرجہ بالا اداروں کے قوانین میں ترامیم جیسا کہ صدر نے دستخط کیے ہیں، انہیں جنوری 2023 میں نافذ کردہ ریاستی ملکیتی کاروباری اداروں (گورننس اینڈ آپریشنز) ایکٹ، 2023 کے مطابق لانے کے لیے کی گئی ہیں۔حکومت اب SOE قانون کی دفعات کو ایسے اداروں تک توسیع دینے کا انتظام کر رہی ہے جو خصوصی قوانین کے تحت چلتے ہیں۔ پاکستان میں تقریبا 200 ریاستی ملکیت والے ادارے (SOEs) ہیں جو مختلف امور کی انجام دہی میں مصروف ہیں۔ریڈیو پاکستان، نیشنل ہائی وے ، شپنگ کارپوریشن اور پاکستان پوسٹل سروسز پاکستان کی معیشت کے ایک اہم حصے کی نمائندگی کرتے ہیں اور ملک کے بنیادی ڈھانچے، مواصلات اور افادیت کے شعبوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔حکومتی سرپرستی میں کام کرنے والے SOEs کا خسارہ سال 2020 میں 500 ارب روپے سے تجاوز کر گیا جو کہ سال 2019 میں 143 ارب روپے تھا۔ وزارت خزانہ بہت سے SOEs کو اچھی حالت میں رکھنے کے لیے مدد فراہم کر تی رہی ہے۔ حالیہ آرڈیننس SOE اصلاحات کا حصہ ہیں جن پر حکومت نے اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ اتفاق کیا تھا اور IMF کے ساتھ اسٹرکچرل بینچ مارک کے طور پر اسٹینڈ بائی معاہدے کی شرائط پر اتفاق کیا تھا۔ نئی ترامیم کے ذریعے بورڈ کے چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو کے دفاتر کو ان اداروں میں الگ کر دیا جائے گا تاکہ بہترین بین الاقوامی طریقوں کے مطابق اچھی حکمرانی کو یقینی بنایا جا سکے۔ اداروں کے بورڈز میں ماہرین کوشامل کیا جائے گا، جو فیصلہ سازی کے عمل میں نئے خیالات اور مہارت کا اضافہ کریں گے۔ماہر ارکان کی مدت ملازمت کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔یہ ترامیم SOE ایکٹ کی دیگر دفعات کے اطلاق کو بھی یقینی بنائیں گی، مثال کے طور پر SOEs کی کارکردگی کی نگرانی کے لیے وزارت خزانہ میں CMU قائم کیا گیا ہے۔ ان اقدامات سے ان اداروں کی شفافیت، کارکردگی اور نگرانی میں اضافہ ہوگا۔ CMU اداروں کی کارکردگی کی باقاعدگی سے کابینہ کمیٹی برائے SOEs کو رپورٹ کرے گا۔ اس طرح وفاقی حکومت کے اندر اعلی ترین فورمز پر ان کی قوت کو یقینی بنائے گا۔مجموعی طور پر، ان سرکاری اداروں کے قوانین میں ترامیم اور ان کو خود مختار بورڈ کے ذریعے چلانے کا عمل بہتر طرز حکمرانی، خدمات کی فراہمی اور عوام کے لیے جوابدہی کا باعث بنے گا۔پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اورسٹیٹ بینک آف پاکستان جیسے مضبوط ریگولیٹری اداروں نے ماضی میں پبلک کمپنیوں کو پرائیویٹ پارٹنرز کے حوالے کرنے کے بعد ان کا رخ تبدیل کرنے میں مدد دی ہے۔ ایسے قانونی اور ریگولیٹری فریم ورک کے بغیر، نجکاری سمیت کوئی بھی اصلاحاتی کوشش کامیاب نہیں ہوتی۔اس لئے آرڈیننسوں کا اجرا ایک قانونی ضرورت پوری کرتا ہے۔دوسرا مرحلہ کارپوریٹ گورننس اور SOE بورڈز کی پیشہ ورانہ کار کردگی کو بہتر بنانا ہے کیونکہ بنیادی قواعد، عمل اور SOE مینجمنٹ اور ان کے سرکاری ذمہ داروں کے درمیان تعلقات کو کنٹرول کرتے ہیں، بعض اوقات یہ ایک دوسرے سے متضاد مینڈیٹ رکھتے ہیں۔ اگرچہ پبلک سیکٹر کمپنیز کارپوریٹ گورننس رولز 2013 میں مفید رہنما اصول فراہم کئے گئے ہیں لیکن جب بورڈ کی کارروائی میں کاروبار کرنے کے حوالے سے شرائط کی بات کی جائے تو اس میں بہت سے خلا موجود ہیں۔اداروں کو خود مختار بورڈوں کے ذریعے چلانے کا تجربہ اس لحاظ سے ناکام ہو سکتا ہے کہ ان کے بورڈ ممبران کو سیاسی نوازشات کے طور پر تعینات کیا جائے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ متعلقہ وزارتکے سابق سیکرٹریوں کو ڈائریکٹر کے طور پر نامزد کرنے کے بجائے وسیع مقامی اور بین الاقوامی تجربہ رکھنے والے پیشہ ور بورڈ ممبران کو لایا جائے۔بورڈز کی خود مختاری کو ان کی کمیٹیوں کو مالیاتی رپورٹنگ، کارکردگی کی نگرانی اور احتساب کے طریقہ کار کے حوالے سے مزید اختیارات دے کر بڑھانے کی ضرورت ہے۔.اس مرحلے میں تنظیم نو بہت ضروری ہے اور اسے ریگولیٹری قانونی فریم ورک کے ذریعے مدد دی جانی چاہیے ۔SOEs کے تمام قرضوں کو خرید کر اور اسے رعایت پر نیلام کر کے ذمہ داریوں کی دوبارہ تفویض کے لیے کوئی نیا ادارہ بھی تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ کچھ پلانٹس یامینوفیکچرنگ یونٹس کو بند اور فروخت کیا جا سکتا ہے، یا حکومت فروخت سے پہلے انہیں جدید بنانے کے لیے اضافی سرمایہ لگا سکتی ہے۔مثال کے طور پر کارپوریٹ اینڈ انڈسٹریل ری سٹرکچرنگ کارپوریشن (CIRC) دو دہائیاں قبل حکومت کے زیر ملکیت بینکوں کی ذمہ داریوں کو نمٹانے کے لیے قائم کی گئی تھی ۔چاروں اداروں کو خود مختاری دینے کے دوران جس بات کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے وہ یہاں کام کرنے والوں کی ملازمت کا تحفظ ہے۔ملازمین اب کنٹریکٹ پر بھرتی ہوں گے۔مجموعی طور پر اس فیصلے سے سرکار پر مالیاتی بوجھ کم ہونے کا امکان ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here