کوئی رہ تو نہیں گیا ۔۔۔ ؟

0
75
محمد حسین
محمد حسین

روم کے بادشاہ جولیس سیزر کو اس کے 60 ساتھیوں نے مل کر قتل کیا ۔ اس کے سب سے قریبی بااعتماد دوست بروٹس نے جب اس کی پیٹھ میں خنجر گھونپا تو اس نے پلٹ کر حیرت سے دیکھا اور مرنے سے پہلے کہا …Bruitus you too یعنی ” بروٹس تم بھی ان میں شامل ہو ۔۔۔؟ ” 9 اپریل کی شام کچھ اسی طرح کا اظہار وزیراعظم ہائوس سے رخصتی سے قبل جب اس سازش کے سارے چہرے بے نقاب ہو گئے تو عمران خان نے کہاکہ ” کوئی رہ تو نہیں گیا ، جو میرے خلاف نہ ہو ۔ ” پارلیمانی جمہوریتوں کی ماں برطانوی پارلیمنٹ اتنی بااختیار ہے کہ وہ چاہے تو عورت کو مرد اور مرد کو عورت قرار دے سکتی ہے ۔ پاکستان میں 7 اپریل کو ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں بیرونی مداخلت کے الزام کو صحیح مانتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 5 کے تحت قرارداد کو مسترد کر دیا ۔ جس پر عدالت عالیہ نے اسی رات از خود نوٹس لیا اور 4 روزہ سماعت کے بعد چیف جسٹس سپریم کورٹ عمر عطا بندیال کی قیادت میں 5 رکنی پینچ نے کیا کمال کا اصول قانون Jurusprudence وضع کی ہے ۔ ریاست میں اختیارات کی تقسیم مقننہ ، عدلیہ اور حکومت میں کچھ اس طرح ہے کہ مقننہ یا پارلیمان قوانین بناتی ہے اور حکومت یا انتظامیہ ان قوانین پر عمل درآمد کرواتی ہے جبکہ عدلیہ یا سپریم کورٹ کا کام اس کی تشریح کرنا ہے ۔ آئین کی ارٹیکل 69 کے تحت ” کوئی عدالت پارلیمنٹ کی کاروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی ” کو نظر انداز کرتے ہوئے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو سپریم کورٹ نے ناصرف کالعدم قرار دیا بلکہ توڑی گئی قومی اسمبلی کو بحال کرتے ہوئے سپیکر کو ڈکٹیشن دی کہ ” 9 اپریل صبح ساڑھے دس بجے اجلاس شروع کر کے عدم اعتماد کی کارروائی کو مکمل کریں ۔” سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے عدالت عالیہ کی ڈکٹیشن کے مطابق اجلاس کی کاروائی شروع کروائی ۔ جس کے بعد لمبی تقریروں کا سلسلہ شروع ہوا ۔ جب یہ معاملہ لٹکتا ہوا نظر آنے لگا تو کسی نادیدہ قوت نے سپریم کورٹ کے ججوں کو اس توہین عدالت اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کو آرمی چیف کی برطرفی کی جھوٹی اطلاع دی ۔ جس پر ہفتے کی رات 11 بجے عدالت کھلوائی گئی تاکہ گستاخ وزیراعظم عمران خان اور گستاخ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو ہتھکڑیاں لگا کر جیل بھجوایا جائے ۔ اس وقت سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے یہ کہتے ہوئے سپیکر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا کہ ” میں سمجھتا ہوں کہ پارلیمانی جمہوریت میں پارلیمنٹ سپریم ہوتی ہے ، عدالت نہیں ۔” اس صورتحال پر اینکر پرسن عمران ریاض خان نے تبصرہ کیا کہ ” سپریم کورٹ نے وزیراعظم عمران خان کو ہاتھ پاوں باندھ کر ڈالروں پر بکے ہوئے ممبران قومی اسمبلی کے سامنے پھینک دیا ہے ۔” قدرت اللہ شہاب نے شہاب نامہ میں اقوام متحدہ میں اپنے کام کرنے کے تجربے کے حوالے سے لکھا ہے کہ ” اقوام متحدہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول پر کام کرتا ہیاور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ لاٹھی والا یہ بھینس آرام سے لے جائے ۔” سپریم کورٹ کے ان 5 ججوں نے بھی کچھ اسی طرح اس بات کو یقینی بنایا کہ ہارس ٹریڈنگ تو ہو چکی ہے ، اب یہ سیاسی گھوڑے اپنا کام بھی مکمل کریں ۔ سپریم کورٹ نے اس سے دو ہفتے قبل آئین کے آرٹیکل 63 A کی وضاحت کے لئے بھجوائے گئے صدر پاکستان عارف علوی کے ریفرنس پر بھی ٹھنڈ پروگرام رکھا ۔ 7 اپریل کے فیصلے پر نظرثانی کے لیے 9 اپریل کو دن ساڑھے بارہ بجے اظہر صدیق ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کی طرف سے دائر کی گئی۔
درخواست عدالتی وقت ختم ہونے کا عذر لگا کر واپس کر دی گئی ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے اس جوڈیشل مارشل لا کو ممکن بنایا ۔ عمران خان کو امریکی ناپسندگی پر ہٹایا جانا تو پھر بھی سمجھ آتا ہے لیکن گزشتہ 35 سالوں میں ریاست پاکستان کا بنیادی ڈھانچہ تباہ کرنے والے ان مکروہ چہروں کو حکومت دینا سمجھ سے باہر ہے ۔ آئی ایس آئی اسٹیبلشمنٹ کا دماغ ہے ۔ اسے دنیا کی نمبر ون ایجنسی معلوم نہیں کس نے قرار دیا ہے کہ اس مسئلے کا حل ان کے پاس صرف یہ تھا کہ عمران خان کو جوڈیشل مارشل لا سے ہٹا کر 40 چوروں کو ریاست ، حکومت اور طاقت و اختیار سونپ دیا جائے ۔ سیکیورٹی اداروں نے گزشتہ 10 سالوں میں دہشت گردی کے جو جن MQM اور PTM وغیرہ بوتل میں بند کیئے تھے وہ اب پھر اتحادیوں سے سیاسی معاہدے کے تحت باہر آ گئے ہیں ۔ آرمی چیف جنرل باجوہ اس ساری سازش کو پہلے ، دوسرے ، تیسرے ، چوتھے مرحلے میں روک سکتے تھے اور کچھ نہیں تو پانچویں مرحلے پر ایک سال کی ٹیکنو کریٹ حکومت قائم کی جاسکتی تھی ، جو انہوں نے نہیں کی ۔ جنرل باجوہ پر امن طور پر حکومت کے خاتمے اور اقتدار کی منتقلی کو یقینی بنا کر امن و امان قائم رکھنے میں تو کامیاب رہے ، لیکن ملک 30 سال پیچھے چلا گیا ۔ 10 اپریل کو ایک کروڑ پاکستانی احتجاج کرتے ، قومی ترانہ پڑھتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے ۔ فوج اس سارے معاملے سے غیر متعلق رہنے کا تاثر دے رہی ہے ۔ لیکن نون لیگی سوشل میڈیا 9 اپریل کو وزیراعظم عمران خان کو جنرل باجوہ کی طرف سے تھپڑ مارنے کی جھوٹی خبریں چلا کر مزے لے رہا ہے ۔ جس سے فوج بالخصوص جنرل باجوہ کے خلاف عوام میں ناپسندیدگی کے جذبات ابھرے ہیں ۔ 9 اپریل کو ہی آرمی نے 27 سو کلومیٹر رینج کا شاہین 3 میزائل کا ٹیسٹ کیا ، آئی ایس پی آر نے اس کی ویڈیو یوٹیوب پر ڈالی ، جس پر عوام نے اس ٹیسٹ پر رائے دینے کے بجائے حکومت کی برخواستگی اور فوج کے کردار پر سخت ردعمل والے 5 ہزار سے زائد تبصرے کیئے ۔ 12 اکتوبر کو جی ایچ کیو راولپنڈی میں کور کمانڈرز کا اجلاس ہوا ۔جس کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل بابرافتخار نے ایک دھمکی آمیز اعلانیہ جاری کیا کہ ” فوج کی کردار کشی ہو رہی ہے ، جس سے سختی سے نمٹا جائے گا ۔” 14 اپریل کو بھی ایک پریس بریفنگ میں انہوں نے سکیورٹی کونسل کے اعلانیہ میں لفظ Conspiracy نہ ہونے اور کھلی مداخلت Blatant interference ہونے کا بیان دے کر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ ” پہلے مرغی آئی تھی یا کہ انڈہ ” ۔ 20 سال قبل ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کی لوٹ مار اور ملکی وہ عالمی بداعمالیوں پر بات کرنے کو بھی ملک و قوم اور فوج کے خلاف سازش قرار دیتے ہوئے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل راشد قریشی نے اسی طرح کا ایک دھمکی آمیز اعلانیہ جاری کیا تھا ۔ ایک موقع پر قاضی حسین احمد نے کور کمانڈرز کو ” کروڑ کمانڈرز ” بھی کہا تھا ۔ جنرل راشد قریشی ڈکٹیٹر جنرل مشرف اور ان کے ساتھی جرنیلوں کے ملک و قوم کے خلاف جن جرائم پر پردہ ڈال رہے تھے ، اس نے ریاست پاکستان کا 150 بلین ڈالرز کا نقصان کیا اور قوم نے 70 ہزار شہدا کے لاشے اٹھائے ۔ جنرل مشرف اور ان کے ساتھی جنریلوں کی جوہری بداعمالیوں اور غلطیوں کا الزام بھی قوم کے باپ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے 4 فروری 2004 کو اپنے سر لیا ۔ کچھ اسی طرح کی صورتحال اب عمران خان کے ساتھ بھی ہے کہ ریاست پاکستان کی روس سے تعلقات بڑھانے اور آزاد فارن پالیسی اپنانے کے جرم پر صرف عمران خان کو مصلوب کر دیا گیا ۔ سپریم کورٹ کے غیر آئینی غیر قانونی ” کچھ کرنے اور کچھ نہ کرنے ” کے لیے ماضی میں بھی اسٹیبلشمنٹ انہیں ڈنڈہ دیتی رہی ۔ اب مارکیٹ میں ججوں کی قیمت فروخت 3 ارب روپے فی جج والی کہانی پھیلا کر سارہ مدہ ججوں پر ڈالنے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ امریکہ نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا بازو مروڑ کر اپنے مطلب کی حکومت پاکستان کے 22 کروڑ عوام پر مسلط کی ہے ۔ عمران خان ایک ” آزاد فارن پالیسی اور امریکہ سے کوئی دشمنی نہیں ” کے بیانئیے کو پرموٹ کرتے رہے اور انہیں مستقبل کی سیاست کے لئے اب بھی اسی بیانیہ کو پروموٹ کرنے کی ضرورت ہے ۔ امریکہ بھی جوہری پاکستان کو اب غریب کی جورو سمجھنا چھوڑ دے اور ” ڈو مور ” کے مطالبے سے پیچھے ہٹ جائے ۔ بالخصوص پاکستان کے خلاف بھارتی مفادات اور مطالبات کو سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے جاری کرنا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے ۔ جناب جنرل باجوہ صاحب ، سڑکوں پر نکلے ہوئے قوم کے یہ لاکھوں نوجوان بچے اور بچیاں آپ کو اپنا سپہ سالار اور باپ سمجھتے ہیں ، انہوں نے آپ کے گریبان پر ہاتھ نہیں ڈالا صرف سوال پوچھ رہے ہیں کہ ” امپورٹڈ حکومت کیوں ۔۔۔ ؟ ” اور جس طرح سپریم کورٹ نے عمران خان کو ہارس ٹریڈنگ کے سامنے ہاتھ پاں باندھ کر پھینک دیا تھا ، آپ نے 22 کروڑ عوام کو ہاتھ پیر باندھ کر ان بھیڑیوں کے سامنے پھینک دیا ہے ! پاکستان میں صرف بدعنوان سیاستدانوں نہیں بلکہ بدعنوان ججوں اور جرنیلوں کو بھی ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے ۔!
امیر شہر غریبوں کو لوٹ لیتا ہے
کبھی بہ حیلہ مذہب کبھی بنامِ وطن
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here