پاکستان میں اس وقت ایک خطرناک کھیل کھیلا جارہا ہے مختلف طبقات ایک دوسرے کے خلاف نبزد آزما ہیں۔اہم قومی ادارے بھی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں مگن ہیں۔ایک شخص نے تماشہ بنایا ہوا ہے جس نے اعلیٰ ترین عدالتوں پر آدھی رات کو عدالتیں کھولنے پر سوال اٹھائے ہیںپھر انہی کو تحقیقات کی درخواست پر دے رہا ہے۔ اہم قومی ادارے کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا ہوا ہے پھر ساتھ میں یہ بھی کہتا رہا ہے کہ ملک کے دفاع کیلئے یہ ادارہ نہایت اہم ضرورت ہے۔کچھ عرصہ قبل جو شخص اقتدار کو کوئی اہمیت نہیں دینے کا دعویٰ کرتا تھا اب اقتدار سے باہر آکر ماہی بے آپ کی طرح تڑپ رہا ہے۔اقتدار کے دوبارہ حصول کیلئے ملک کو تباہ کرنے کے درپے ہے۔چیف الیکشن کمشنر کو مسلم لیگ نواز کا ایجنٹ قرار دینے والا مطالبہ کرتے تھکتا نہیں کہ ملک میں فوراً انتخابات کرائے جائیں۔اگر چیف الیکشن کمشنر پر اعتماد نہیں ہے تو آئندہ انتخابات پر اعتماد کیسے ہوگا وہ صرف اسی صورت میں ہوگا اگر موصوف کی جماعت فتح سے ہمکنار ہوجائے بصورت دیگر میں تو پہلے ہی کہتا تھا کہ الیکشن کمشنر نون لیگ کا ایجنٹ ہے۔”کا اعلان کیاجائیگا اب ایک نیا شوشا چھوڑ دیا ہے کہ مجھے قتل کرنے کی سازش ”بند کمروں” میں ہو رہی ہے بھائی سازش اور وہ بھی کسے قتل کرنے کی کھلے برآمدوں میں تو ہونے سے رہی۔میں نے ویڈیو پیغام ریکارڈ کروا دیا ہے جسمیں ان ہونے والے قاتلوں کے نام بھی لے لئے ہیں تو اگر مجھے قتل کر دیا جاتا ہے تو سیالکوٹ واتو تم میرا انصاف کروانا جس ملک میں قائداعظم کو خراب ایمبولینس بھجوا کر ہلاک کیا گیا۔لیاقت علی خان کو لیاقت باغ میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ذوالفقار علی بھٹو کو مولوی مشتاق کی عدالت کے ہاتھوں ہلاک کردیا گیا۔محترمہ بینظیر کو لیاقت باغ کے دروازے پر قتل کر دیا گیا ان تمام بڑی شخصیات کو انصاف نہیں ملا تو آپ کو کہاں سے ملے گیا۔آپ زبردستی شہید بننے کی کوشش نہیں کریں شہادت نصیب والوں کے حصہ میں آتی ہے ورنہ تو جنرل نیازی بھی مانک شاہ کے سامنے ہتھیار پھینکنے کے بجائے لڑتے ہوئے شہادت قبول کرتے آپ کو معلوم ہوچکا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کرلیا ہے کہ یہ رتبہ آپ کو نہیں دینا ہے انہوں نے سیکھ لیا ہے اس لئے آپ نے اس شوشہ کو چھوڑنے میں جلد بازی کی ہے ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اپنے منہ سے اسی بات شام کے ایسے لمحات میں نہیں نکالنا چاہئے کیونکہ پتہ نہیں کونسا لمحہ قبولیت کا ہو۔دوسرے لمحے میں موصوف فرماتے ہیں کہ میں ان سب کے (اپنے مخالف سیاستدانوں کے)جنازے نکالوں گا۔عزت، ذلت، رزق زندگی اور موت ہے پانچ چیزیں اب ذولجلال نے اپنے ہاتھوں میں رکھیں ہیں کسی انسان کی بساط نہیں وقت کے فرعون پھر بھی ان پر اپنا دعویٰ جتاتے رہے ہیں لیکن کسے اپنے جنازے کا پتہ نہیں کہ کب ،کہاں نکلے اور تکبر کو شرک سے تشبیح اسی لئے دی جاتی ہے کہ یہ میرے رب جلیل کے سوا کسی کو نہیں حاصل ۔تم سے پہلے جن لوگوں نے بڑے بڑے دعوے کئے تھے آج ان کا نام ونشان نہیں، قبرستان بھرے ہوئے ہیں۔ان لوگوں سے جن کو اپنی طاقت جاہ و جلال پر ناز تھا۔اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ زمین پر بھی پیر پٹخ کہ نہ چلو میرے رب کو نیاز مندی نرم گوئی پسند ہے یہی خصوصیات اللہ نے اپنے محبوب نبی آخر زماں کو عطا کیں تھیں جن کی زندگی ایک مومن کیلئے مشعل راہ ہے۔اللہ کے محبوب نے بڑے بڑے دعوے اور الزام تراشیاں نہیں کیں صرف ظلم جبروکفر کے خلاف اس وقت تلوار اٹھائی جب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا تھا۔
معاشرے میں بدتمیزی اور بدتہذیبی کے خطرناک بیچ بوئے جارہے ہیں جو معاشرہ پہلے ہی تنزلی کا شکار ہے اس میں جو زہر گھولا جارہا ہے وہ ہمیں تیزی سے مکمل تباہی اور بربادی کے سپرد کر دیگا۔یہ شتر بے مہار ملک کو تیزی سے خانہ جنگی کی طرف لے جارہا ہے،اس موقعہ پر شاعر جدوجہد وحق احمد فراز کے کچھ اشعار قارئین موقعہ کی مناسب سے پیش خدمت کرتا ہوں۔
مثل پیرہن اے گل پھر سے بدن چاک ہوئے
جیسے اپنوں کی کمانوں میں ہوں اغیار کے تیر
اس سے پہلے بھی ہوا چاند محبت کا دونیم
نوک دشنا سے کھینچی تھی میری دھرتی پہ لکیر
آج ایسا نہیں ایسا نہیں ہونے دینا
اے میرے سوختا جانو، میرے پیارے لوگو!
اب کے اگر زلزلے آئے تو قیامت ہوگی
میرے دلگیر میرے درد کے مارے لوگو
کسی غاصیب، کسی ظالم، کسی قاتل کے لئے
خود کو تقسیم نہ کرنا میرے سارے لوگو!
خود کو تقسیم نہ کرنا میرے سارے لوگو!
خود کو تقسیم نہ کرنا میرے سارے لوگو!
٭٭٭٭٭