شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کی اسلامی خدمات

0
329
شمیم سیّد
شمیم سیّد

نیا سال شروع ہو گیا ہے تمام مسلمانوں کو اور تمام دنیا میں رہنے والوں کو نیا سال مبارک ہو، اللہ کرے کہ یہ سال امن و آشتی کا سال رہے اور کرونا وائرس سے نجات حاصل ہو، اس نئے سال کے تحفہ کے طورپر میں نے سوچا کیوں نہ ایک ایسی شخصیت پر جو کہ پاکستان بلکہ تمام دنیا میں ایک علمی اور شفق شخصیت کے طور پر مشہور ہیں اور پاکستان کے ان بڑے بڑے جید علمائوں میں ان کا شمار ہوتا ہے جنہوں نے اسلام کیلئے جتنا لکھ دیا ہے شاید اب کوئی اور وہ کام نہیں کر سکتا ،آپ ان سے مسلکی یا ذاتی اختلاف رکھ سکتے ہیں لیکن ان کی علمیت اور قابلیت پر اُنگلی نہیں اُٹھا سکتے بہت کم لوگ ایسے گزرے ہیں جن کو لکھنے اور بولنے پر عبور حاصل ہو عطاء اللہ شاہ بخاری کے بعد اگر جس شخص کالکھنے اور خطاب کرنے میں کوئی ثانی نہیں تو وہ ڈاکٹر طاہر القادری ہیں ان کا جوش خطابت منفرد ہے اور گھنٹوں وہ اپنے خطاب سے لاکھوں کے مجمع کو مسحور کر دیتے ہیں۔ 19 فروری 1951ء میں پنجاب کے شہر جھنگ میں ڈاکٹر فرید الدین قادری کے گھر میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ بارہ سال کی عمر میں مدینہ میں واقع مدرسة انصاری الشرعیہ سے باقاعدہ تعلیم حاصل کی، اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیا۔ 1978ء میںپی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ 1983ء سے 1987ء تک فیڈرل کورٹ جو سپریم کورٹ سے اس میں بہت سے ایسے فیصلے ہوئے جنہیں بعد میں پی ایل ڈی پی ایل جے کا حصہ بھی بنایا گیا۔ 1981 میں ڈاکٹر طاہر القادری نے ادارۂ منہاج القرآن کی ابتداء کی۔ دیکھتے ہی دیکھتے 200 ممالک میں اسلامی مرکز قائم ہو گئے۔ اسی ادارے کی نسبت سے 570 سکول اور کالجز چل رہے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی اسلامی خدمات تو بہت ہیں لیکن کچھ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں آپ نے بریلوی مسلک کی تفاسیر، حدیث اور صحت حدیث پر بیسیوں مجموعے چھاپے، اسلامی عقائد کیا ہیں اس پر مفصل لکھا ہے۔ حضورۖ کی ذات اقدس پر فقہہ کُھل کر لکھااور اصول فقہہ کو نہ صرف آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے بلکہ عصر حاضر کے تقاضوں کو زندگی کو احسن طریقے سے کوئی بھی شخص گزار سکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا بہت بڑا تاریخی فتویٰ بھی آیا جو اسلام میں خود کش حملہ آوروں کے متعلق 600 صفحات پر مشتمل ہے جس نے پوری دنیا میں اسلام کے بارے میں لوگوں کو پتہ چلا جس سے ڈاکٹر صاحب کو ایک الگ مقام حاصل ہو گیا۔ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب اور مولانا طارق جمیل صاحب میں کچھ باتیں مشترک ہیں دونوں انتہائی میٹھی زبان رکھتے ہیں دونوں انتہائی خلوص اور محبت کیساتھ اپنے عقیدت مندوں سے ملتے ہیں اور ان کی فیملی تک کے بارے جانتے ہیں اپنے لاکھوں عقیدت مندوں کے بارے میں معلومات رکھنا یہ عام لوگوں کا کام نہیں۔ مولانا طارق جمیل کے ڈاکٹر صاحب کیساتھ بہترین تعلقات ہیں اور ملاقاتیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔
ڈاکٹر طاہر القادری کی دینی خدمات تو اپنی جگہ لیکن لوگوں کی فلاح و بہبود کیلئے آغوش کمپلیکس جس میں 500 یتیم بچوں کی کفالت ہوتی ہے۔ بیت الزیرہ میں بھی یتیم بچوں کی کفالت کی جاتی ہے۔ منہاج یونیورسٹی، منہاج کالجز، منہاج اسکولز، 102 ملک بھر میں فری ڈسپنسری، 20 شہروں میں فری ایمبولینس سروس اجتماعی شادیاں کروانا اور بھی بہت سے کام ہیں جو ادارۂ منہاج القرآن کرتا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری ایک ہزار کتابوں کے مصنف ہیں شاید ہی کسی عالم دین نے اتنی کتابیں لکھی ہوں۔ دنیا کو اسلام کا پُر امن چہرہ دکھانے والی شخصیت، آپ ان سے سیاسی اختلاف کر سکتے ہیں لیکن ان کی علمیت سے انکار نہیں کر سکتے۔ ان کی تفسیر قرآن بہت ہی خوبصورت اور آسان زبان میں لکھی گئی ہے۔ قرآنی انسائیکلوپیڈیا جو 8 جلدوں پر مشتمل ہے۔ 35000 ہزار صفحات پر مشتمل حدیث انسائیکلوپیڈیا اور سب سے بڑا کارنامہ جو شاید ہی اس سے پہلے کسی نے نہیں لکھا ہوگا وہ عربی زبان میں قرآن کی تفسیر جو دس ہزار صفحات پرمشتمل ہے ،اسی سے ان کی علمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ایک بات جو ان کی ذات کے متعلق ہے میں نے ہیوسٹن کے امریکہ میں منہاج القرآن کے صدر رضی نیازی سے پوچھی تھی کہ آپ تو ان کے بہت قریب ہیں آپ نے ان میں کیا دیکھا جو آپ ان کیساتھ ہیں جبکہ اس سے پہلے بہت علماء یہاں آتے رہے ہیں آپ نے ان میں کیا دیکھا اس پر انہوں نے کہا کہ ان کا باطن اور ظاہر ایک ہے۔ متقی اور پرہیز گار شخصیت ہیں۔ لالچ اور متاع سے بہت دور ہیں انکساری اور عاجزی کا پیکر ہیں یہی باتیں ان کی مجھے متاثر کرتی ہیں اور میں ان کی عزت و تکریم میں کوئی کمی نہیں آنے دیتا۔ ہیوسٹن بھی کئی دفعہ تشریف لائے ہیں اور میری بھی ملاقات رہی ہے میں نے بھی انہیں بہت ہی شفیق پایا ان کی باتیں اور بیان سن کر دل خوش ہو جاتا ہے۔ وہ حضورۖ کی محبت میں ہمیشہ سرشار رہنے والے وہ مجاہد ہیں جو حضورۖ کی ذات پر کوئی ایسی بات سننے کو تیار نہیں ہوتے جس سے حضورۖ کی شان میں کوئی کمی ہو جائے۔ ہمارے علماء اکرام جو ان کی مخالفت کرتے ہیں وہ صرف مسلکی اختلافات رکھتے ہیں۔ اللہ مجھے معاف کرے ہمارے زیادہ تر علماء زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں اس لئے بھی وہ ڈاکٹر طاہر القادری سے اختلاف کرتے ہیں ان کی علمیت اور ان کی دینی خدمات ان کی وہ کتابیں ہیں جو انہوں نے لکھی ہیں میں سمجھتا ہوں کہ مولانا ابو علی مودودی کے بعد گر کسی نے اسلام پر اتنی کتابیں لکھی ہیں وہ صرف شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری ہیں جو اب بھی مسلسل لکھ رہے ہیں ،اللہ تعالیٰ ایسے عالموں کو زندگی اورصحت دے۔ تاکہ وہ بلا تفریق اسلام کی خدمت کرتے رہیں اور اپنے خطابات سے نوجوان نسل کو اسلام پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں یہی میری طرف سے سال کا تحفہ ہے جو میں نے شیخ الاسلام کے بارے میں لکھ کر اپنے قارئین کو دیا ہے جن کو حضرت کے بارے میں علم نہیں ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here